پاکستان میں استعمال شدہ کپڑوں کی درآمد میں ریکارڈ اضافہ، غربت کی شرح 45 فیصد تک جا پہنچی

جمعہ 15 اگست 2025 17:02

پاکستان میں استعمال شدہ کپڑوں کی درآمد میں ریکارڈ اضافہ، غربت کی شرح ..
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 15 اگست2025ء) گزشتہ مالی سال کے دوران پاکستان میں استعمال شدہ کپڑوں کی درآمد تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچ گئی، عالمی بینک کے مطابق ملک میں غربت کی شرح بڑھ کر 45 فیصد ہو گئی ہے۔میڈیا رپورٹ کے مطابق پاکستان میں استعمال شدہ کپڑوں کی درآمد گزشتہ مالی سال میں ریکارڈ سطح پر پہنچ گئی، جو 11 لاکھ 37 ہزار ٹن رہی، جس کی مالیت 51 کروڑ 10 لاکھ ڈالر ہے، یہ 2024 کے مالی سال میں قائم کردہ 9 لاکھ 90 ہزار 266 ٹن (43 کروڑ 40 لاکھ ڈالر) کے سابقہ ریکارڈ سے زیادہ ہے،یہ نمایاں اضافہ ایک طرف سستے کپڑوں کی بڑھتی ہوئی طلب کو ظاہر کرتا ہے تو دوسری جانب ملک میں بڑھتے ہوئے معاشی بحران اور گہری ہوتی غربت کو بھی واضح کرتا ہے،بڑی تعداد میں لوگ جو مقامی طور پر تیار کردہ برانڈڈ اشیا خریدنے کی استطاعت نہیں رکھتے، اب لنڈا بازار یا ہفتہ بازاروں کا رخ کر رہے ہیں۔

(جاری ہے)

شیرشاہ اور بنارس جیسے یہ بازار کم آمدنی والے طبقے کے لیے زندگی کی اہم ضرورت بن چکے ہیں جہاں استعمال شدہ کپڑے، جوتے اور دیگر اشیا نئی برانڈڈ اشیا کے مقابلے میں نہایت کم قیمت پر دستیاب ہیں۔عالمی بینک کی تازہ ترین رپورٹ کے مطابق پاکستان کی تقریباً 45 فیصد آبادی اب غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہی ہے، جب کہ نیا معیار فی کس یومیہ 4.20 ڈالر مقرر کیا گیا ہے، جو پہلے 3.65 ڈالر تھا۔

اس نئے معیار نے نچلے درمیانے طبقے میں غربت کی شرح کو 39.8 فیصد سے بڑھا کر 44.7 فیصد کر دیا ہے۔پاکستان سیکنڈ ہینڈ کلودنگ مرچنٹس ایسوسی ایشن (پی ایس ایچ سی ایم ای) کے جنرل سیکریٹری محمد عثمان فاروقی نے استعمال شدہ کپڑوں کی درآمد میں اضافے کو بڑھتی ہوئی غربت سے منسلک کیا۔انہوںنے کہاکہ کم اور متوسط آمدنی والے خاندان بڑی تعداد میں سستی استعمال شدہ اشیا پر انحصار کر رہے ہیں۔

انہوں نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ استعمال شدہ کپڑوں پر عائد مختلف ٹیکسز اور ڈیوٹیز کو کم کیا جائے، جن میں 10 فیصد ریگولیٹری ڈیوٹی، 5 فیصد کسٹمز ڈیوٹی، 6 فیصد ایڈوانس انکم ٹیکس اور تقریباً 5 فیصد سیلز ٹیکس شامل ہیں۔عثمان فاروقی کے مطابق یہ ٹیکسز ان لوگوں کیلئے استعمال شدہ کپڑوں کو بھی مہنگا بنا دیتے ہیں جنہیں ان کی سب سے زیادہ ضرورت ہے۔

استعمال شدہ کپڑوں کے خریدو فروخت میں شامل تاجروں کو بھی اضافی ٹیکسز ادا کرنے پڑتے ہیں، جن میں خرید و فروخت کی قیمت کے فرق پر 5 فیصد سیلز ٹیکس شامل ہے، اور مقامی تاجروں کو سالانہ 6 لاکھ روپے سے زائد آمدنی ہونے پر انکم ٹیکس بھی دینا پڑتا ہے۔فنانس بل 2024 میں استعمال شدہ کپڑوں کے درآمد کنندگان کو ودہولڈنگ ایجنٹ نامزد کیا گیا ہے جنہیں تقسیم کاروں، ڈیلروں اور ہول سیلرز سے 0.1 فیصد ایڈوانس ٹیکس وصول کرنا لازمی ہے لیکن اگر یہ پارٹیاں فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) میں رجسٹرڈ نہ ہوں تو ودہولڈنگ ٹیکس کی شرح 2 فیصد یا غیر مطابقت رکھنے والے ریٹیلرز کے لیے 2.5 فیصد تک بڑھ جاتی ہے۔

عثمان فاروقی کے مطابق استعمال شدہ کپڑوں کے کاروبار سے وابستہ بہت سے افراد ایف بی آر میں رجسٹرڈ نہیں ہیں اور اکثر ان کے پاس مستقل کاروباری مقام یا درست ریکارڈ موجود نہیں ہوتا، جس کی وجہ سے وہ ٹیکس قوانین پر عمل نہیں کر پاتے۔انہوں نے کہا کہ اگرچہ حکومت معیشت کو مستحکم کرنے کی کوشش کر رہی ہے لیکن اس کا فائدہ عام عوام تک منتقل ہونا چاہیے۔

انہوں نے ریگولیٹری ڈیوٹی کے خاتمے اور استعمال شدہ کپڑوں کی درآمد پر ٹیکس چھوٹ دینے کا مطالبہ کیا تاکہ کم آمدنی والے طبقے کا مالی بوجھ کم ہو سکے۔استعمال شدہ کپڑوں کی درآمد زیادہ تر یورپی ممالک، امریکا، جاپان، کوریا، چین اور کینیڈا سے کی جاتی ہے،پاکستان میں خصوصی زونز میں قائم برآمد کنندگان 60 سے 70 فیصد درآمدات پر قابض ہیں، یہ یونٹس غیر ترتیب شدہ کپڑوں میں سے اعلیٰ معیار کی اشیا الگ کرتے ہیں، جنہیں بعد میں دوبارہ برآمد کیا جاتا ہے، جبکہ صرف 10 سے 20 فیصد مقامی مارکیٹ میں فروخت ہوتا ہے۔

استعمال شدہ کپڑوں پر درآمدی ڈیوٹی 36 روپے فی کلوگرام اور جوتوں پر 66 روپے فی کلوگرام عائد ہے،فاروقی کے مطابق ان ٹیکسز میں کمی ملک کے پسماندہ طبقے کو ریلیف فراہم کر سکتی ہے۔مارکیٹ سروے کے مطابق استعمال شدہ درآمدی جینز 300 سے 400 روپے میں ملتی ہیں، جب کہ سیکنڈ ہینڈ قمیض 250 سے 300 روپے میں دستیاب ہے، اس کے برعکس لاہور میں تیار ہونے والے نئے اسپورٹس جوتے 2 ہزار 500 سے 3 ہزار 500 روپے میں اور ویتنام یا چین میں تیار کردہ برانڈڈ جوتے 4 ہزار سے 5 ہزار 500 روپے میں فروخت ہوتے ہیں، تاہم استعمال شدہ اسپورٹس جوتے 600 سے 800 روپے میں مل جاتے ہیں، جو زیادہ تر خریداروں کے لیے قابل برداشت ہیں۔

سستی استعمال شدہ اشیا کی بڑھتی ہوئی طلب کے باعث لٴْنڈا بازار اب ضروری بن گئے ہیں، جو مہنگی نئی اشیا کے متبادل فراہم کر رہے ہیں، جیسے جیسے پاکستان کی معیشت مشکلات کا شکار ہے یہ بازار کم آمدنی والے طبقے کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت اختیار کر چکے ہیں، جو بڑھتی ہوئی غربت میں گزارا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔