ہندوتوا کی علمبردار تنظیم آر ایس ایس کے بارے میں آپ کیا جانتے ہیں؟

DW ڈی ڈبلیو جمعرات 2 اکتوبر 2025 11:20

ہندوتوا کی علمبردار تنظیم آر ایس ایس کے بارے میں آپ کیا جانتے ہیں؟

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 02 اکتوبر 2025ء) وزیر اعظم نریندر مودی نے بدھ کو آر ایس ایس کی صد سالہ تقریبات کا افتتاح کرتے کہا کہ اپنی بنیاد سے ہی، آر ایس ایس قوم کی تعمیر کے لیے کوشاں رہی ہے۔ اس سال وجیا دشمی (دسہرہ) دو اکتوبر کو ہے۔

اس موقع پر حکومت کی جانب سے جاری کردہ بیان کے مطابق، آر ایس ایس ایک رضاکارانہ تنظیم کے طور پر قائم کی گئی تھی جس کا مقصد شہریوں میں ثقافتی شعور، نظم و ضبط، خدمت اور سماجی ذمہ داری کو فروغ دینا تھا۔

لیکن آر ایس ایس اور اس کے رہنماؤں پر کئی کتابوں کے مصنف دھریندر کمار جھا کا کہنا ہے کہ، آر ایس ایس اور سنگھ پریوار اور اس کی سیاسی ونگ بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی)، ''مسلمانوں کو دوسرے درجے کا شہری بنانے کے، اپنے دوسرے سرسنگھ چالک (سربراہ) ایم ایس گولوالکر کے نظریے کو عملی شکل دینے کی ہر ممکن کوشش کرتی رہی ہے۔

(جاری ہے)

‘‘ جھا کی گولوالکر پر کتاب حال ہی میں شائع ہوئی ہے۔

جھا نے ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے کہا، ''اپنے قیام کے ایک سو سال کے دوران آر ایس ایس کی بنیادی فکر اور نظریے میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے اور اس کی شاکھاؤں (تربیتی کیمپوں) میں تربیت حاصل کرنے والا ہر شخص، ایک ہی طرح سے سوچتا ہے، خواہ وہ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی ہوں یا مہاتما گاندھی کا قاتل ناتھو رام گوڈسے۔‘‘

غیر سیاسی ہونے کے دعووں کے باوجود سنگھ پریوار کے کئی افراد انتخابی سیاست میں سرگرم رہے ہیں۔

ان میں سابق وزیر اعظم اٹل بہاری واجپئی سے لے کر موجودہ وزیر اعظم نریندر مودی تک کے نام شامل کیے جا سکتے ہیں۔

آر ایس ایس کی توسیع

آر ایس ایس کے شعبہ نشرواشاعت کے سربراہ سنیل امبیکر نے اپنی کتاب میں لکھا ہے، ایسا کوئی شعبہ نہیں ہے جو آر ایس ایس کی دسترس سے باہر ہو۔

راشٹریہ سوائم سیوک سنگھ (آر ایس ایس)، جسے سنگھ یا سنگھ پریوار کے نام سے بھی جانا جاتا ہے، کی شروعات 25 نوجوان سوائم سیوک یا رضاکاروں کے گروپ سے ہوئی۔

اس کی تنظیمی ساخت عام اداروں کی طرح ہے، لیکن صرف مرد ہی اعلیٰ عہدوں تک پہنچ سکتے ہیں۔ آر ایس ایس کی ویب سائٹ پر بتایا گیا ہے کہ عملی دشواریوں کے مدنظر اس میں صرف ہندو مردوں کو ہی داخلے کی اجازت دی گئی ہے۔

آر ایس ایس چھ شعبہ جات کے تحت کام کرتی ہے۔ ان شعبہ جات کے تحت قومی سطح پر کم از کم 46 دیگر ونگز ہیں جو 'سنگھ پریوار' کے دائرے میں آتی ہیں۔

ہر ریاست کی اپنی الگ تنظیم بھی ہے۔ مجموعی طور پر، آر ایس ایس کے سو سے زائد قومی ادارے موجود ہیں۔

آر ایس ایس تقریباً 44 صوبوں یا 'کشیتروں' پر مشتمل ہے۔ ہر کشیتر میں کچھ پرانت (علاقہ) اور ہر پرانت مزید ذیلی علاقے میں تقسیم ہوتا ہے۔ ہر ضلع کے تحت کچھ شہر اور گاؤں ہوتے ہیں جنہیں 'نگر' کہا جاتا ہے نگر کئی مقامی بستیوں کا مجموعہ ہوتا ہے۔

شاکھا یا 'برانچ‘ آر ایس ایس کی سب سے چھوٹی اکائی ہے۔ آر ایس ایس کا زیادہ تر تنظیمی کام بھارت بھر میں 1,27,367 سے زیادہ شاکھاؤں کے ذریعے انجام دیا جاتا ہے۔

شاکھا کا تصور آر ایس ایس کے بانی ہیڈگوار نے متعارف کرایا۔ شاکھا روزانہ ایک کھلے میدان میں تقریباً ایک گھنٹے کے لیے منعقد ہوتا ہے۔ ابتداء سے شاکھا میں جسمانی مشقیں اور پریڈ کے علاوہ علمی اور فکری مباحثے بھی شامل ہیں۔

کوئی بھی شخص سنگھ کی قریبی 'شاکھا‘ سے رابطہ کر کے سویم سیوک (رضاکار) بن سکتا ہے۔

امبیکر اپنی کتاب میں لکھتے ہیں، 'تمام شاکھاؤں میں سب سے اہم سبق یہ سکھایا جاتا ہے کہ ''بھارت ایک ہندو راشٹر ہے۔‘‘

آر ایس ایس کے سربراہ یا سرسنگھ چالک

اپنی بنیاد کے بعد سے آر ایس ایس کے چھ سربراہ رہے ہیں جنہیں سرسنگھ چالک کہا جاتا ہے۔

آر ایس ایس کے سربراہ کو اس کا 'رہنما اور حرف آخر‘ قرار دیا جاتا ہے۔ یہ عموماً اپنے پیش رو کی جانب سے نامزد ہوتا ہے اور زندگی بھر اس عہدے پر کام کرتا ہے۔ یہ اپنا کام سنگھ کے ناگپور ہیڈکوارٹر سے انجام دیتا ہے۔

سرکاریہ واہ یا جنرل سیکرٹریز اور سہ سرکاریہ واہ، یعنی جوائنٹ جنرل سیکرٹریز، سرسنگھ چالک کے ماتحت کام کرتے ہیں۔

ہیڈگوار آر ایس ایس کے پہلے سرسنگھ چالک بنے، انہوں نے 10 نومبر 1929 کو یہ عہدہ سنبھالا۔ ان کے بعد ایم ایس گولوالکر (1940 سے 1973)، مدھُکر دتاتریہ دیورس (1973-1994)، راجندر سنگھ عرف رجّو بھیّا(1994-2000) اور کے ایس سدرشن (2000-2009) آئے۔

موہن بھاگوت، جو گزشتہ ماہ 75 سال کے ہوئے، نے مارچ 2009 میں آر ایس ایس کے سرسنگھ چالک کے طور پر عہدہ سنبھالا۔

موہن بھاگوت خود کو اعتدال پسند ہندو رہنما کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کرتے رہے ہیں۔

ان کے بعض حالیہ بیانات سے یہ خوش گمانی پیدا ہو گئی تھی کہ بھارت کے مسلمانوں کے متعلق آر ایس ایس کے خیالات میں تبدیلی آرہی ہے مثلاﹰ انہوں نے کہا تھا کہ ہندوؤں اور مسلمانوں کا ڈی این اے ایک ہے اور مسلمانوں کے بغیر بھارت کا تصور نہیں کیا جا سکتا، یا پھر یہ کہ ہر مندر کے نیچے مسجد کی تلاش بند ہونی چاہیے۔

لیکن اس حوالے سے جھا کا کہنا تھا کہ ہندوتوا کی اس تنظیم کا یہ وطیرہ رہا ہے کہ وہ کہتی کچھ اور کرتی کچھ ہے۔

انہوں نے یاد دلایا کہ آر ایس ایس سربراہ نے حال ہی میں کہا تھا کہ بھارت کو اصل آزادی 1947 میں نہیں بلکہ اس دن ملی جس دن اجودھیا میں رام مندر کا افتتاح ہوا تھا۔

پرچارک اور وچارک

آر ایس ایس میں دیگر عہدوں کے علاوہ جیسے 'وچارک‘ یا نظریہ ساز بھی موجود ہیں۔ اس کے ساتھ ایک ’پرچارک‘ بھی ہوتا ہے، جو آر ایس ایس کے نظریات کو پھیلانے کے لیے فعال، کل وقتی رضاکار ہوتا ہے۔

وزیر اعظم نریندر مودی اور سابق وزیر اعظم اٹل بہاری واجپئی پہلے آر ایس ایس کے پرچارک تھے، اس کے بعد انہوں نے بی جے پی میں شمولیت اختیار کی۔

زیادہ تر پرچارک اپنی زندگی کو تنظیم کی خدمت کے لیے وقف کر دیتے ہیں۔ عام طور پر، وہ لوگ جو آر ایس ایس کے تین بڑے تربیتی کیمپ، یعنی 'سنگھ شِکشا ورگ‘ میں شریک ہوتے ہیں، پرچارک کے طور پر مقرر کیے جاتے ہیں۔

کہا جاتا ہے کہ پرچارک تنظیم کو ناگپور سے پورے ملک میں پھیلانے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔

فی الحال، آر ایس ایس میں تقریباً 6000 پرچارک موجود ہیں۔

کاریہ کرتا یا فعال کارکن بھی آر ایس ایس تنظیم کا ایک اہم جزو ہے۔ کاریہ کرتا بننے کے لیے، آر ایس ایس کے اراکین سنگھ کے کیمپوں میں نظریاتی اور جسمانی تربیت کے چار مراحل سے گزرتے ہیں۔

زیادہ تر کاریہ کرتا ‘گرہست کاریہ کرتا' یعنی گھریلو کارکن ہوتے ہیں، جو آدھے وقت کے لیے تنظیم کی مدد کرتے ہیں، جبکہ باقی پرچارک ہوتے ہیں، جو مکمل وقت تنظیم کا کام کرتے ہیں۔

آر ایس ایس نے جنگ آزادی میں حصہ لیا تھا؟

وزیر اعظم مودی نے دعویٰ کیا کہ آر ایس ایس نے آزادی کی تحریک میں حصہ لیا۔

وزیر اعظم مودی نے کہا کہ آر ایس ایس نے 'قوم پہلے‘ کے عقیدے کی وجہ سے برطانوی حکومت اور نظام (حیدرآباد) کے ہاتھوں بے پناہ مشکلات برداشت کیں۔

اور آزادی کی جدوجہد کے دوران آر ایس ایس کے اراکین، بشمول بانی کیشَو بلی رام ہیڈگور، جیل بھیجے گئے۔

لیکن آر ایس ایس پر تحقیقات کرنے والے صحافی دھیرندر جھا اس کی تردید کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ آزادی کی تحریک میں آر ایس ایس کے شامل ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، کیونکہ آر ایس ایس کا بنیادی نظریہ انہیں برطانوی مخالف جدوجہد سے الگ لے جا رہا تھا۔

دھیرندر جھا کے مطابق، آر ایس ایس کی بنیاد ہندوتوا کی نظریاتی سوچ تھی جو ''ہندوؤں کو یہ باور کرانے کی کوشش کر رہی تھی کہ ان کے سب سے بڑے دشمن مسلمان ہیں، نہ کہ برطانوی حکومت۔‘‘

آر ایس ایس پر سب سے سنگین تنقید یہ کی جاتی ہے کہ مہاتما گاندھی کے قاتل ناتھورام گوڈسے 'سنگھ‘ کے رکن تھے۔ لیکن آر ایس ایس اس کی تردید کرتی ہے۔

اس کا مؤقف ہے کہ جب گوڈسے نے گاندھی کا قتل کیا تب وہ سنگھ کا حصہ نہیں تھے۔

قتل کے مقدمے کی سماعت کے دوران ناتھورام گوڈسے نے خود عدالت میں کہا تھا کہ وہ ایک وقت میں آر ایس ایس میں تھے لیکن بعد میں انہوں نے سنگھ کو چھوڑ کر ہندو مہا سبھا میں شمولیت اختیار کر لی۔

دھیرندر جھا نے گوڈسے پر اپنی ایک کتاب میں سوال کیا ہے ''گوڈسے نے آر ایس ایس کب چھوڑا اور وہ ہندو مہا سبھا میں کب شامل ہوئے؟‘‘

آر ایس ایس پر یادگاری ڈاک ٹکٹ اور سکّہ جاری

مودی نے آر ایس ایس کی صد سالہ تقریبات کے موقع پر ایک خصوصی یادگاری ڈاک ٹکٹ اور سکّہ جاری کیا۔

انہوں نے کہا کہ یہ خصوصی سکّہ اور ڈاک ٹکٹ آر ایس ایس کی قوم کے لیے خدمات کو اجاگر کرتے ہیں۔

وزیر اعظم نے کہا ''یہ بھارت کی تاریخ میں پہلی بار ہے کہ بھارت ماتا کی تصویر کسی سکّے پر کندہ کی گئی ہے۔‘‘

خیال رہے مودی، جو خود سابق آر ایس ایس پرچارک رہ چکے ہیں، نے مارچ 2025 کو ناگپور میں آر ایس ایس کے ہیڈکوارٹر کا دورہ کیا تھا جو ہندوتوا کی علمبردار تنظیم کے ہیڈکوارٹر میں کسی بھارتی وزیر اعظم کا پہلا دورہ تھا۔

اپوزیشن کانگریس نے وزیرِاعظم کے اس بیان پر تنقید کی کہ آر ایس ایس کے رہنما آزادی کی جدوجہد کے دوران جیل گئے تھے۔ کانگریس کا کہنا ہے کہ دراصل آر ایس ایس کے رہنماؤں نے ''بھارت چھوڑو تحریک‘‘ کو کچلنے میں برطانوی حکومت کی مدد کی تھی۔

دریں اثنا قومی دارالحکومت دہلی کی بی جے پی حکومت نے دہلی کے سرکاری اسکولوں کے نصاب میں آر ایس ایس کی تعلیمات، خدمات اور اس کے رہنماؤں کے متعلق أبواب شامل کرنے کا اعلان کیا ہے۔

ادارت: صلاح الدین زین