مودی حکومت کی بھارت کی تاریخ سے مسلم شخصیات اورانکے علمی ورثے کو مٹانے کی سازش،دلی یونیورسٹی نے علامہ محمد اقبال کو بھارت مخالف قراردیکر انکا کلام نصاب سے نکال دیا

جمعہ 15 اگست 2025 18:00

نئی دہلی (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 15 اگست2025ء) مودی کی ہندوتوا حکومت ہندو قوم پرستی کی آڑ میں بھارت کی تاریخ سے مسلم شخصیات اور ان کے ثقافتی ،علمی وادبی ورثے کومٹانے کی سازش جاری رکھے ہوئے ہے ۔کشمیرمیڈیاسروس کے مطابق تازہ ترین اقدام میں سرکاری سرپرستی میں چلنے والی دلی یونیورسٹی نے شاعر مشرق اور عظیم فلسفی ،شاعر علامہ محمد اقبال کے کلام کو یونیورسٹی کے نصاب سے حذف کرنے کا فیصلہ کیاہے ۔

علامہ محمد اقبال، جنہوں نے "سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا" جیسے لازوال ترانے سے برصغیر کے کروڑوں لوگوں کے دلوں کو گرمایا، آج اسی سرزمین میں انہیں "بھارت مخالف"قرار دیا جا رہاہے۔ دلی یونیورسٹی کے وائس چانسلر یوگیش سنگھ نے دعویٰ کیا ہے کہ علامہ محمد اقبال نے1910میں یہ ترانہ ضرور لکھا تاہم بعد ازاں ان کی سوچ بھارت مخالف ہوگئی تھی۔

(جاری ہے)

علامہ اقبال کی سوچ کو بھارت مخالف قراردینے کا اعلان یونیورسٹی کے سینٹر فار انڈیپنڈنس اینڈ پارٹیشن اسٹڈیز کے زیر اہتمام تقسیم برصغیرپاک و ہند کے یادگاری دن کے پروگرام کے دوران کیا گیا۔ پروگرام میں برصغیر پاک و ہند کی تقسیم کی تاریخ، اس کے اسباب اور نتائج پر گفتگو کی گئی۔وائس چانسلر یوگیش سنگھ نے مودی حکومت کے ہندوتوا نظریات پر عمل پیراہوتے ہوئے کہا کہ علامہ محمد اقبال کی سوچ یہ ترانہ لکھنے کے بعد بدل گئی تھی لہذا اب انہیں یونیورسٹی میں پڑھانا مناسب نہیں۔

تاہم سوال یہ پیداہوتاہے کہ کیا تاریخی حقائق سے نظریاتی اختلاف رکھنے پر کسی مفکر کے کلام کو نصاب تعلیم سے ہٹا دینا درست اقدام ہے ؟ کیا یہ اقدام نئی نسل کو ذہنی غلامی کی طرف دھکیلنے کی ایک سازش نہیں ؟ماہرین کے مطابق علامہ اقبال کو نصاب سے نکالنا صرف ایک علامتی قدم نہیں بلکہ اس کا مقصدبھارت کی تاریخ سے مسلمانوں کی علمی و تہذیبی شناخت کو بتدریج مٹاناہے۔علامہ اقبال جیسی آوازوں کو نصاب سے نکالناتعلیمی نہیںنظریاتی امتیاز کے مترادف ہے ۔یہ اقدام صرف علامہ اقبال کے کلام کو نہیں بلکہ ایک سوچ، ایک قوم اور تاریخ کو مٹانے کی کوشش ہے۔