چیئرمین ایس ای سی پی، کمشنرز کی تنخواہوں میں سالانہ ڈیڑھ ارب غیر قانونی اضافے کا انکشاف

چیئرمین عاکف سعید کی تنخواہ کا پیکیج مالی سال 24-2023 کیلئے 41 کروڑ 53 لاکھ روپے تک پہنچ گیا تھا

ہفتہ 23 اگست 2025 20:25

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 23 اگست2025ء)آڈٹ رپورٹ نے سیکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان (ایس ای سی پی) کے مالی معاملات پر سنگین خدشات ظاہر کیے ہیں، جن میں چیئرمین اور کمشنرز کے لیے تنخواہوں کے پیکیج میں غیر مجاز اضافہ شامل ہے، جو سالانہ 156 کروڑ روپے سے زائد بنتا ہے۔میڈیا رپورٹ کے مطابق یہ رپورٹ آڈیٹر جنرل آف پاکستان (اے جی پی) نے مرتب کی ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ قانون کے مطابق ایس ای سی پی کو تنخواہوں میں اضافے کے لیے وزارتِ خزانہ سے منظوری حاصل کرنا ضروری ہے، تاہم ایس ای سی پی کی انتظامیہ نے 17 اکتوبر 2024 کو پالیسی بورڈ کے اجلاس میں ملازمین کی تنخواہوں میں اضافے کی منظوری دے دی، جو یکم جولائی 2023 سے مؤثر قرار دی گئی۔

آڈٹ میں انکشاف ہوا کہ ایس ای سی پی کے چیئرمین عاکف سعید کی تنخواہ کا پیکیج مالی سال 24-2023 کے لیے 41 کروڑ 53 لاکھ روپے تک پہنچ گیا، جب کہ ہر کمشنر کو بیک ڈیٹ تنخواہوں کے اضافے کی وجہ سے 35 کروڑ 80 لاکھ روپے ملے۔

(جاری ہے)

مزید برآں رپورٹ میں بتایا گیا کہ ایس ای سی پی نے کمشنرز اور عملے کے لیے 11 کروڑ روپے بطور تفریحی الاؤنس غیر قانونی طور پر تقسیم کیے۔

اے جی پی کی رپورٹ میں واضح کیا گیا کہ اگرچہ یہ اضافے ایس ای سی پی پالیسی بورڈ نے منظور کیے، لیکن بورڈ کے پاس اس کی اجازت دینے کا اختیار ہی نہیں تھا، مزید یہ کہ تنخواہوں اور الاؤنسز میں اضافے وزارتِ خزانہ کی پیشگی منظوری کے بغیر کیے گئے، جن کی مجموعی مالیت 3 ارب 77 کروڑ 22 لاکھ روپے ہے۔رپورٹ میں وزارتِ خزانہ پر زور دیا گیا کہ وہ یا تو ان غیر قانونی اضافوں کی منظوری دے یا انہیں ختم کرے۔

آڈٹ نے اجاگر کیا کہ ایس ای سی پی تقریباً 14 ارب روپے وفاقی مجموعی فنڈ میں جمع کرانے میں ناکام رہا، جس میں 7 ارب 11 کروڑ روپے آمدن شامل ہیں، یہ رقوم لائسنسنگ اور رجسٹریشن فیس (4 ارب 13 کروڑ روپی)، انشورنس سیکٹر (59 کروڑ 15 لاکھ روپی)، سیکیورٹیز مارکیٹ (4 کروڑ 77 لاکھ روپی)، اور خصوصی کمپنیوں (ایک ارب 91 کروڑ روپی) سے حاصل کی گئیں۔پبلک فنانس مینجمنٹ ایکٹ 2019 کی دفعہ 37 (1) کے تحت وفاقی حکومت کے قانونی آلات کے تحت کسی خودمختار ادارے کی جانب سے جمع کی گئی تمام آمدنی کو ’ٹریڑری سنگل اکاؤنٹ‘ میں جمع کرانا ضروری ہے، تاہم ایس ای سی پی نے اس تقاضے پر عمل نہیں کیا۔

ایس ای سی پی 6 ارب 99 کروڑ روپے کی زائد رقم بھی وفاقی مجموعی فنڈ میں جمع کرانے میں ناکام رہا، حالانکہ آمدنی اور اصل اخراجات میں کسی بھی قسم کی بچت لازمی طور پر فنڈ میں منتقل کرنا ضروری ہے۔