سپریم کورٹ ، سپرٹیکس کیس کی سماعت، ججز ،وکلا کے درمیان بحث میں سخت سوالات

بدھ 10 ستمبر 2025 22:43

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 10 ستمبر2025ء) سپریم کورٹ میں سپر ٹیکس کیس میں ریمارکس دیئے ہیں کہ عوام کیلئے سہولتیں پیدا کی جائیں گی تو کاروبار آگے بڑھے گا، بصورت دیگر مشکلات برقرار رہیں گی۔بدھ کو سپریم کورٹ میں سپر ٹیکس کیس پر سماعت ہوئی ایف بی آر کے وکیل نے موقف اختیار کیا کہ سندھ ہائیکورٹ نے اپنا فیصلہ سابق عدالتی فیصلوں کی بنیاد پر دیا۔

انہوں نے وضاحت کی کہ سپر ٹیکس صرف ان اداروں پر لاگو کیا گیا ہے جن کی آمدن 300 ملین روپے سے زائد ہے، یہ ٹیکس 15 منتخب شعبوں پر لگایا گیا ہے اور کسی کمپنی نے اب تک مالی استطاعت نہ ہونے کا جواز پیش نہیں کیا۔جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ پارلیمان نے ٹیکس دہندگان میں تفریق کیوں رکھی ٹیکس کا بنیادی مقصد حکومتی آمدن میں اضافہ ہوتا ہے مگر ایسے اقدامات سے ٹیکس دینے والوں کی حوصلہ شکنی ہوتی ہے اور وہ سرمایہ بیرون ملک منتقل کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔

(جاری ہے)

انہوں نے مزید کہا کہ فیصلوں میں ٹیکس کی تفریق کی وجوہات واضح نہیں کی گئیں اور اس خلا کو پر کرنا ضروری ہے۔جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ ٹیکس کا اصل بوجھ بالآخر صارف اور عام آدمی پر ہی منتقل ہوتا ہے۔ انہوں نے مثال دیتے ہوئے کہا کہ چاہے سیمنٹ کی بوری ہو یا ایل این جی کا ایک بوجھ، اثر عوام ہی پر پڑتا ہے۔ عوام کے لیے سہولتیں پیدا کی جائیں گی تو کاروبار آگے بڑھے گا، بصورت دیگر مشکلات برقرار رہیں گی۔

وکیل عاصمہ حامد نے موقف اپنایا کہ سندھ ہائیکورٹ اور اسلام آباد ہائیکورٹ نے اپنے فیصلے سناتے وقت کوئی ڈیٹا طلب نہیں کیا۔ اس پر جسٹس مندوخیل نے کہا کہ مقدمہ صرف اتنا ہے کہ آخر ٹیکس دہندگان میں فرق کیوں رکھا گیا اور اس سوال کا تسلی بخش جواب دیا جانا لازمی ہے۔دوران سماعت یہ نکتہ بھی اٹھایا گیا کہ انکم ٹیکس اور سپر ٹیکس کی تعریفیں الگ ہیں اور یہ ٹیکس دیگر محصولات کے ساتھ ہی متعارف کرایا گیا تھا، تاہم ججز نے زور دیا کہ جب تک پالیسی کی وجوہات واضح نہ ہوں، ٹیکس دہندگان میں تفریق کی قانونی حیثیت سوالیہ نشان رہے گی۔بعد ازاں سپریم کورٹ نے سپر ٹیکس سے متعلق اہم مقدمے کی سماعت تک ملتوی کر دی۔