ایچ آر سی پی کی صوابائی سے ٹرانس جینڈرز کو نکالنے کی مذمت

اس طرح کے اقدامات غیر آئینی، امتیازی اور پہلے ہی سے محروم ایک طبقے کے خلاف تشدد پر اکسانے کے مترادف ہیں،حکام

اتوار 14 ستمبر 2025 16:55

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 14 ستمبر2025ء)ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان (ایچ آر سی پی) نے خیبرپختونخوا کے ضلع صوابی سے بزرگوں کی 11 رکنی کمیٹی کی جانب سے تمام ٹرانس جینڈر کو نکالے جانے کے فیصلے کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس طرح کے اقدامات غیر آئینی، امتیازی اور پہلے ہی سے محروم ایک طبقے کے خلاف تشدد پر اکسانے کے مترادف ہیں۔

تفصیلات کے مطابق ایچ آر سی پی کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا کہ ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان صوابی میں کمیونٹی بزرگوں کی طرف سے ٹرانس جینڈرز کو ضلع بدر کرنے کے لیے کمیٹی تشکیل دینے کے فیصلے کی سخت مذمت کرتا ہے۔بیان میں کہا گیا کہ اس طرح کے اقدامات غیر آئینی، امتیازی اور پہلے ہی سے محروم ایک طبقے کے خلاف تشدد پر اکسانے کے مترادف ہیں۔

(جاری ہے)

بیان میں کہا گیا کہ کسی بھی شہری کو جنس کی شناخت کی بنیاد پر پاکستان میں کہیں بھی رہنے، کام کرنے یا روزگار کمانے کے حق سے محروم نہیں کیا جا سکتا۔ہیومن رائٹس کمیشن نے صوبائی اور ضلعی حکام پر زور دیا کہ وہ فوری طور پر صوابی میں ٹرانس جینڈر کی حفاظت اور وقار کو یقینی بنائیں اور آئین اور ٹرانس جینڈر پرسنز (تحفظِ حقوق) ایکٹ 2018 کے تحت ان کے بنیادی حقوق کا تحفظ کریں۔

بزرگوں کی جانب سے اس فیصلے پر عمل کروانے کے لیے جس کمیٹی کی تشکیل کی گئی ہے، اس میں جمعیت علمائے اسلام (ف) کے تحصیل صدر مولانا عبدالصمد حقانی سمیت دیگر افراد شامل ہیں۔کمیٹی کے رکن مولانا صمد نے کہا کہ وہ چاہتے ہیں کہ ٹرانس جینڈر افراد پرامن طریقے سے ضلع چھوڑ دیں اور کہیں اور جا کر روزگار کمائیں، کیونکہ جب تک وہ یہاں رہیں گے، موسیقی کے پروگرام منعقد ہوتے رہیں گے، جو نوجوانوں پر منفی اثر ڈال رہے ہیں۔

اسی طرح کمیٹی کے ایک اور رکن یاسر خان نے کہا کہ پہلے مرحلے میں ٹرانس جینڈر افراد کو پرامن طور پر ضلع چھوڑنے کو کہا جائے گا، اور اگر ایسا نہ ہوا تو ضلعی پولیس سے رجوع کیا جائے گا۔کمیٹی کے ارکان نے کہا کہ وہ آئندہ چند دنوں میں دوبارہ ملاقات کریں گے اور الگ سے ضلعی پولیس کے ساتھ بھی ملاقات کر کے ٹرانس جینڈر افراد کو ضلع سے نکالنے کی حکمت عملی پر بات کریں گے۔

یہ پیش رفت اس وقت سامنے آئی جب پولیس نے صوابی میں ایک چھاپے کے دوران مزاحمت کرنے اور ایک موسیقی کے پروگرام میں شریک ہونے کے الزام میں 200 سے زائد افراد کو گرفتار کیا، جن میں 2 ٹرانس جینڈر افراد بھی شامل تھے۔اس تقریب کے شرکا پر یہ الزام بھی ہے کہ انہوں نے پولیس کو تقریب روکنے کی کوشش پر ’غلیظ زبان‘ استعمال کی۔11 رکنی کمیٹی کے اس مطالبے کے جواب میں کہ ٹرانس جینڈر افراد کو ضلع سے نکالا جائے، ٹرانس جینڈر کمیونٹی کے کچھ افراد نے ایک ویڈیو جاری کرتے ہوئے کہا کہ یہ کبھی نہیں ہو گا۔

انہوں نے کہا کہ وہ روزگار کمانے کے دوران مقامی روایات اور اقدار کا احترام کرتے ہیں اور ان پر عمل کرتے ہیں، لہٰذا کمیٹی کے ارکان کو قانون ہاتھ میں نہیں لینا چاہیے۔ٹرانس جینڈر افراد نے کہا کہ وہ قانون اور آئین سے باخبر ہیں، اور اگر انہیں سرکاری نوکریاں دی جائیں تو وہ شادی بیاہ وغیرہ میں ناچ گانے کو چھوڑنے کے لیے تیار ہیں، انہیں انسانیت کے تناظر میں دیکھا جائے۔