جرمنی: سزایافتہ افغانوں کی ملک بدری پر طالبان سے بات چیت جاری

DW ڈی ڈبلیو پیر 15 ستمبر 2025 14:00

جرمنی: سزایافتہ افغانوں کی ملک بدری پر طالبان سے بات چیت جاری

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 15 ستمبر 2025ء) جرمن وزیرِ داخلہ الیگزانڈر ڈوبرنٹ نے تصدیق کی ہے کہ جرمنی میں جرائم کے مرتکب افغان شہریوں کو ملک بدر کرنے کے لیے طالبان کے ساتھ مذاکرات ہو رہے ہیں۔

انہوں نے کہا، ’’ہم چاہتے ہیں کہ ملک بدری اپنے طور پر ممکن ہو، اسی لیے وزارت داخلہ کے اہلکاروں اور افغانستان کے نمائندوں کے درمیان تکنیکی رابطے قائم رکھے گئے ہیں۔

‘‘

انہوں نے کہا کہ جرمن وفود نے قطر میں افغان نمائندوں کے ساتھ ''تکنیکی مذاکرات‘‘ کیے ہیں اور آئندہ ہفتوں میں مزید ملاقاتیں ہوں گی۔

ڈوبرِنڈٹ نے مزید کہا، ’’یہ تکنیکی رابطے بالآخر اس بات کا باعث بنیں گے کہ ہم افغانستان کے لوگوں کو باقاعدگی سے ملک بدر کر سکیں۔

(جاری ہے)

‘‘

علاوہ ازیں، جرمن وزیر خارجہ یوہان واڈے فیہول نے بھی تصدیق کی کہ دوحہ میں ملک بدری پر بات چیت جاری ہے، اور عندیہ دیا کہ کابل میں ملاقاتیں ضروری نہیں۔

جولائی میں، جرمنی نے 81 ایسے افغان شہریوں کو افغانستان بھیجا جو جرائم میں سزا یافتہ تھے۔

یہ اقدام متنازع کیوں ہے؟

طالبان نے اگست 2021 میں نیٹو کے انخلا کے بعد افغانستان میں حکومت پر قبضہ کیا تھا۔ اس کے بعد سے، جرمنی کا طالبان حکومت کے ساتھ کوئی سرکاری سفارتی تعلق نہیں رہا، کیونکہ اسے جائز حکومت تسلیم نہیں کیا گیا۔

گرین پارٹی کے اندرونی پالیسی کے ترجمان مارسَل ایمریش نے اسے ایک اسکینڈل قرار دیا۔

انہوں نے اخبار ٹاگس اشپیگل کو بتایا، ’’عوام کو یہ جاننے کا حق ہے کہ دہشت گردوں کو اس کے بدلے میں کیا مل رہا ہے۔ ڈوبرِنڈٹ خود کو ایک اسلام پسند تنظیم کا محتاج بنا رہے ہیں اور ملک کی سلامتی کو کم کر رہے ہیں۔‘‘

جرمنی میں دائیں بازو کے عروج کے ساتھ، فروری کے عام انتخابات میں سی ایس یو اور سی ڈی یو کی انتخابی مہم میں مہاجرت مرکزی موضوع رہا۔

وفاقی جرمن چانسلر فریڈرش میرس نے وعدہ کیا ہے کہ لوگوں کو افغانستان اور شام واپس بھیجا جائے گا، اور افغانستان میں جرمن اداروں کے سابق مقامی عملے کے لیے پناہ گزینوں کے پروگرام معطل کیے جائیں گے۔

بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی

افغان باشندوں کیپہلی ملک بدری جرمنی کے شہر زولنگن میں اگست 2024 میں کیے گئے چاقو کے ایک مہلک حملے میں تین افراد کی ہلاکت کے واقعے کے ایک ہفتے بعد عمل میں آئی تھی۔

اس حملے میں مشتبہ شخص ایک شامی شہری تھا، جس نے جرمنی میں سیاسی پناہ کی درخواست دے رکھی تھی۔

اس واقعے کے بعد اس وقت کے جرمن چانسلر نے اس عزم کا اظہار کیا تھا کہ جرمنی افغانستان اور شام سے تعلق رکھنے والے ایسے مہاجرین کو دوبارہ ملک بدر کرنا شروع کر دے گا، جو جرائم میں ملوث ہوں۔

حالانکہ انسانی حقوق کے کارکنوں نے اس اقدام پر نکتہ چینی کرتے ہوئے کہا تھا کہ افغانستان محفوظ نہیں ہے اور الزام لگایا کہ افغان شہریوں کی ملک بدری بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی ہے۔

افغان سفارتی مشن کو کام کرنے کی اجازت

جرمنی کے طالبان حکومت کو تسلیم نہ کرنے کے باوجود میرس انتظامیہ نے ان کے دو اہلکاروں کو اس سال جولائی میں ملک میں افغان سفارتی مشنز میں کام کرنے کی اجازت دی ہے۔

برلن کا تاہم کہنا ہے کہ اس اقدام کو افغان تارکین وطن کی مزید ملک بدری کی سہولت فراہم کرنے کے لیے منظور کیا گیا ہے۔

جرمن چانسلر فریڈرش میرس نے اس بات پر زور دیا ہے کہ قونصلر عملے کو ملک میں داخل ہونے اور کام کرنے کی اجازت دینے کے باوجود طالبان کی حکومت کو سفارتی طور پر تسلیم نہیں کیا جائے گا۔

ادارت: صلاح الدین زین