نیشنل کمیشن برائے انسانی حقوق (این سی ایچ آر) کی لیگل ایڈ سوسائٹی کے اشتراک سے دستاویزی فلم جاری
پیر 15 ستمبر 2025
20:10
ؐاسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 15 ستمبر2025ء) نیشنل کمیشن برائے انسانی حقوق (این سی ایچ آر) نے لیگل ایڈ سوسائٹی (ایل اے ایس) کے اشتراک سے شادی کے ذریعے جبری تبدیلیء مذہب کے عوامل اور اس کے متاثرین، مذہبی اقلیتی برادریوں اور پاکستانی معاشرے پر کثیر الجہتی اثرات کو سمجھنے کے لیے ایک جامع دستاویزی فلم اور تحقیقی رپورٹ جاری کی ہے۔
یہ تحقیقی رپورٹ اور دستاویزی فلم پیر کے روز ایک قومی مکالمے کے دوران پیش کی گئی جس کا مقصد شادی کے ذریعے جبری تبدیلیء مذہب کے عوامل پر بحث کرنا تھا۔ رپورٹ میں شادیوں کے ذریعے جبری تبدیلیء مذہب کے متاثرین کے براہِ راست بیانات شامل ہیں اور شادی کے ذریعے جبری تبدیلی مذہب کے عوامل کو واضح کیا گیا ہے تاکہ ''جبر'' اور ''رضامندی'' کے تصورات کو بہتر طور پر سمجھا جا سکے۔
(جاری ہے)
اس تقریب میں قانونی ماہرین، اقلیتی حقوق کے علمبرداروں اور فوجداری نظامِ انصاف کے پیشہ ور افراد نے شرکت کی تاکہ شادیوں کے ذریعے جبری تبدیلیء مذہب جیسے سنگین مسئلے سے نمٹنے کے لیے قابلِ عمل اقدامات پر غور کیا جا سکے۔تقریب کا آغاز لیگل ایڈ سوسائٹی (ایل اے ایس) کی سی ای او حیا ئایمان زاہد کے ابتدائی کلمات سے ہوا، جس کے بعد این سی ایچ آرکی چیئرپرسن رابعہ جویری آغا نے اظہارِ خیال کیااور پھر ایل اے ایس کی ڈائریکٹر ملیحہ ضیا ئنے رپورٹ کے نتائج کا ایک جامع جائزہ پیش کیا۔
تقریب میں عائشہ گزدر (فلم میکر) کی جانب سے شادیوں کے ذریعے جبری تبدیلیء مذہب پر بنائی گئی دستاویزی فلم دکھائی گئی، جسے بونڈ ایڈورٹائزنگ نے پروڈیوس کیا تھا۔ اس کے ساتھ،ساتھ، ملیحہ ضیا ء (ایل اے ایس) کی قیادت میں ایک علمی مباحثہ بھی منعقد کیا گیا۔مباحثے کے شرکاء نے بامعنی گفتگو میں حصہ لیتے ہوئے اپنے خیالات و تجربات شیئر کیے جو پاکستان میں مذہبی اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ اور فروغ کے لئے معاون ثابت ہوں گے۔
اس مباحثے نے سروس پرووائیڈرز کے لیے ایک اشتراکی ماحول فراہم کیا تاکہ وہ پاکستان میں شادی کے ذریعے جبری تبدیلیء مذہب کے مسئلے کا حل تلاش کر سکیں اور اس حوالے سے آئندہ مکالمے کو مزید فروغ دیا جا سکے۔اس موقع پر نیشنل کمیشن برائے انسانی حقوق (این سی ایچ آر) کی چیئرپرسن رابعہ جویری آغا نے کہا کہ شادی کے ذریعے جبری تبدیلیء مذہب کا مسئلہ پاکستان میں ایک ہمہ گیر اور گہری جڑیں رکھنے والا چیلنج ہے، جس نے بالخصوص مذہبی اقلیتی برادریوں کی لڑکیوں اور خواتین کو غیرمعمولی طور پر متاثر کیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اگرچہ مذہبی آزادی کے تحفظ کے لیے آئینی اور قانونی ڈھانچے موجود ہیں، لیکن شادیوں کے ذریعے جبری تبدیلیء مذہب کا عمل بدستور جاری ہے۔ اس کی بڑی وجہ سماجی و ثقافتی، معاشی اور سیاسی عوامل کا پیچیدہ امتزاج ہے، جو ہماری انتظامی کمزوریوں اور معاشرتی دباؤ کو ظاہر کرتا ہے۔چیئرپرسن این سی ایچ آر کا یہ بھی کہنا تھا کہ کمیشن نے شادیوں کے ذریعے جبری تبدیلیء مذہب کے کئی کیسز پر ازخود نوٹس لیا ہے، جن میں کم عمر بچیوں اور خواتین کو اغوا ء کر کے زبردستی اسلام قبول کروایا گیا اور ان اغواء کاروں سے ان بچیوں کی شادی بھی کر دی گئی تاہم این سی ایچ آر کی مداخلت کے باعث متاثرین اور ان کے خاندانوں کو ریلیف فراہم کیا گیا۔
اپنے ابتدائی کلمات میں لیگل ایڈ سوسائٹی (ایل اے ایس) کی سی ای او حیاء ایمان زاہد نے کہا کہ شادیوں کے ذریعے جبری تبدیلیء مذہب کے اثرات نہایت سنگین ہیں، جس کے باعث متاثرین ذہنی صدمے، جسمانی و جنسی تشدد اور سماجی بدنامی کا شکار ہوتے ہیں۔ یہ عمل نہ صرف فرد کی زندگی تباہ کرتا ہے بلکہ مذہبی اقلیتی برادریوں کی سماجی یکجہتی اور ثقافتی ورثے کو بھی کمزور کر دیتا ہے، جس سے ان کی مذہبی آزادی اور عقیدے کی بقا ء مشکل ہو جاتی ہے۔
تحقیقی رپورٹ کے مطابق شادیوں کے ذریعے جبری تبدیلی مذہب کے عوامل کو دو حصوں جیسا کہ ملزمان کی وجوہات اور متاثرین کی کمزوریاں میں تقسیم ہیں۔ ملزمان کی وجوہات میں مذہبی عقائد کا غلط استعمال، نظریاتی بنیادوں پر جنسی استحصال اور گُرومنگ، اسمگلنگ اور جسم فروشی، جنسی خواہشات اور طاقت کا غلط استعمال، ملزمان کا سزاؤں سے بچ جانا اور میڈیا میں اس مسئلے کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنا شامل ہیں۔
رپورٹ میں متاثرین کی کمزوریوں کو چار ذیلی زمروں بچوں کی ذہنی کمزوری جس کے باعث وہ جنسی تشدد اور جبری شادی کا آسان ہدف بن جاتے ہیں، لڑکیوں کا نوعمری، بغاوت اور خطرہ مول لینے کا مرحلہ جسے درندے استحصال کے لیے استعمال کرتے ہیں، خواتین کی صنفی بنیاد پر مخصوص کمزوریاں اور سماجی، ثقافتی اور معاشی عوامل کا باہمی تعلق میں تقسیم کیا گیا ہے۔ اس تقریب کے مہمان خصوصی جسٹس سیدنمحمدنانورنتھی