دوحہ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 16 ستمبر2025ء)دوحہ میں منعقد ہونے والی ہنگامی عرب اور اسلامی سربراہی کانفرنس میں مختلف ملکوں سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ اسرائیل کے ساتھ سفارتی اور اقتصادی تعلقات کا جائزہ لیں۔ یہ اقدام تحریک حماس کے رہنمائوں کو قطر میں نشانہ بنانے کے بعد کیا گیا جو غزہ کی پٹی میں جاری جنگ کے حوالے سے ثالثی کے عمل میں شریک تھے۔
عرب ، اسلامی سربراہی کانفرنس کی جانب سے جاری کردہ حتمی بیان میں تمام ممالک سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ اسرائیل کو فلسطینی عوام کے خلاف اپنی کارروائیاں جاری رکھنے سے روکنے کے لیے تمام قانونی اقدامات اٹھائیں۔ان اقدامات میں اس کی خلاف ورزیوں اور جرائم کے لیے اسے جوابدہ ٹھہرانا، اس پر پابندیاں عائد کرنا اور اسے ہتھیاروں، گولہ بارود اور فوجی ساز و سامان کی فراہمی، منتقلی یا گزرنے پر پابندی عائد کرنا شامل ہے۔
(جاری ہے)
بیان میں اس کے ساتھ سفارتی اور اقتصادی تعلقات کا جائزہ لینے پر بھی زور دیا گیا۔ بیان میں مزید کہا گیا کہ ثالثی کے ایک غیر جانبدار مقام پر یہ جارحیت نہ صرف قطر کی خودمختاری کی خلاف ورزی ہے بلکہ یہ بین الاقوامی ثالثی اور امن سازی کے عمل کو بھی کمزور کرتی ہے اور اس حملے کے مکمل نتائج کا ذمہ دار اسرائیل ہے۔بیان میں اقوام متحدہ میں اسرائیل کی رکنیت کو معطل کرنے کی کوششوں میں ہم آہنگی لانے کا بھی مطالبہ کیا گیا۔
کہاگ یا کہ اسرائیل کی خلاف ورزیاں اقوام متحدہ کے چارٹر کے منافی ہیں۔ رہنماں نے اس بات پر زور دیا کہ اسرائیل کی جارحیت اور اس کے مسلسل اقدامات، نسل کشی، نسلی تطہیر، بھوک اور محاصرہ اور توسیعی آبادکاری کی سرگرمیاں خطے میں امن اور پرامن بقائے باہمی کے حصول کے مواقع کو کمزور کر رہی ہیں۔ یہ سرگرمیاں اسرائیل کے ساتھ معمول کے تعلقات قائم کرنے کی سمت میں حاصل کی گئی تمام کامیابیوں کو خطرے میں ڈال رہی ہیں۔
اسرائیل کے ساتھ موجودہ اور مستقبل کے معاہدوں کو بھی خطرے میں ڈالا جارہا ہے۔بیان میں قطر کے دارالحکومت دوحہ میں ایک رہائشی محلے پر اسرائیل کی جانب سے کیے گئے بزدلانہ اور غیر قانونی حملے کی سخت ترین الفاظ میں مذمت کی گئی۔ یہ وہ جگہ تھی جہاں ریاست نے ثالثی کی کوششوں میں مصروف وفود کی میزبانی کے لیے رہائشی دفاتر مختص کیے تھے۔ اس علاقے میں کئی سکول، نرسریاں اور سفارتی مشن بھی واقع تھے۔
حملے کے نتیجے میں ایک قطری شہری سمیت کئی افراد جاں بحق اور متعدد شہری زخمی ہوگئے تھے۔عرب اور اسلامی ممالک کے رہنماں کے حتمی بیان میں قطر کے ساتھ اس جارحیت کے خلاف مکمل یکجہتی کا اظہار کیا گیا جو تمام عرب اور اسلامی ممالک پر ایک حملہ ہے۔ بیان میں قطر کے ساتھ ہر اس قدم اور تدبیر میں ساتھ کھڑے ہونے کا عہد کیا گیا جو وہ اس غدارانہ اسرائیلی حملے کا جواب دینے کے لیے اٹھائے گی تاکہ اس کی سلامتی، خودمختاری اور استحکام کے ساتھ ساتھ اس کے شہریوں اور اس کی سرزمین پر مقیم افراد کی حفاظت کی جا سکے۔
بیان میں اس بات پر بھی زور دیا گیا کہ قطر کی سرزمین ، جو غزہ میں جنگ بندی، جنگ کے خاتمے اور یرغمالیوں اور قیدیوں کی رہائی کے لیے اہم ثالث کے طور پر کام کر رہی ہے، پر یہ جارحیت ایک خطرناک اضافہ ہے اور امن کی بحالی کی سفارتی کوششوں پر حملہ ہے۔ ثالثی کے ایک غیر جانبدار مقام پر یہ جارحیت نہ صرف قطر کی خودمختاری کی خلاف ورزی ہے بلکہ یہ بین الاقوامی ثالثی اور امن سازی کے عمل کو بھی کمزور کرتی ہے۔
قطر کے امیر تمیم بن حمد آل ثانی نے سربراہی کانفرنس میں اپنی تقریر کے دوران اسرائیل پر الزام لگایا کہ اس نے گزشتہ ہفتے اپنے ملک پر حملہ کر کے غزہ کی پٹی میں جنگ کے حوالے سے جاری مذاکرات کو جان بوجھ کر ناکام بنانا چاہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ جو فریق اپنے مذاکراتی ساتھی کو مسلسل اور منظم طریقے سے قتل کرنے کی کوشش کرتا ہے، اس کا مقصد مذاکرات کو ناکام بنانا ہے۔
اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو یہ خواب دیکھ رہا ہے کہ عرب خطہ اسرائیلی اثر و رسوخ کا علاقہ بن جائے گا اور یہ اس کا ایک خطرناک وہم ہے۔عرب لیگ کے اسسٹنٹ سیکرٹری جنرل حسام زکی نے ایک پریس کانفرنس میں تعلقات پر نظرثانی کے سوال کے جواب میں واضح کیا کہ یہ مطالبہ غیر پابند ہے اور ہر ملک اس پر غور کرے گا اور جو اقدامات مناسب سمجھے گا وہ اٹھائے گا۔
تین عرب ممالک متحدہ عرب امارات، بحرین اور مراکش نے 2020 میں اسرائیل کے ساتھ معمول کے تعلقات قائم کرنے کے معاہدے کیے اور اس کے ساتھ سفارتی تعلقات شروع کیے تھے ۔ سات اکتوبر کو حماس اور اسرائیل کے درمیان شروع ہونے والی جنگ نے سعودی عرب اور اسرائیلی ریاست کے درمیان معمول کے تعلقات کے مذاکرات کو روک دیا ہے۔ اردن اور مصر کے اسرائیل کے ساتھ امن معاہدے اور سفارتی تعلقات پہلے سے موجود ہیں۔
سربراہی کانفرنس کے اختتام پر منعقدہ پریس کانفرنس کے دوران خلیج تعاون کونسل کے سیکرٹری جنرل جاسم محمد البدیوی نے اس سوال کہ شریک ممالک اسرائیل کو روکنے کے لیے کیا اقدامات کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں کے جواب میں کہا کہ ہم توقع کرتے ہیں کہ امریکہ میں ہمارے سٹریٹجک شراکت دار اس رویے کو روکنے کے لیے اسرائیل پر اپنا اثر و رسوخ استعمال کریں گے۔ ان کے پاس اسرائیل پر اثر و رسوخ اور طاقت ہے۔ اب اس اثر و رسوخ اور طاقت کو استعمال کرنے کا وقت آگیا ہے۔