چیئرمین پی ٹی اے میجر جنرل (ر) حفیظ الرحمٰن کا عہدے سے ہٹائے جانے کے فیصلے کے خلاف انٹرا کورٹ اپیل

)اسلام آباد ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف چیئرمین پی ٹی اے کی قانونی جنگ: میجر جنرل حفیظ الرحمٰن نے اپیل دائر کر دی

منگل 16 ستمبر 2025 23:30

Zاسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 16 ستمبر2025ء) چیئرمین پاکستان ٹیلی کمیونی کیشن اتھارٹی (پی ٹی ای) میجر جنرل (ر) حفیظ الرحمٰن نے اسلام آباد ہائیکورٹ کے فیصلے کے خلاف انٹرا کورٹ اپیل دائر کر دی ہے جس میں انہیں پی ٹی اے کے چیئرمین کے عہدے سے ہٹانے کا فیصلہ دیا گیا تھا۔چیئرمین پی ٹی اے نے اپیل میں مؤقف اختیار کیا ہے کہ وہ پی ٹی اے کے موجودہ چیئرمین ہیں اور ان کی تعیناتی قانونی طریقہ کار کے تحت ہوئی۔

انٹرا کورٹ اپیل میں مزید کہا گیا کہ ان کی تقرری 24 مئی 2023 کو پی ٹی اے میں ممبر (انتظامیہ) کے طور پر کی گئی تھی، اور پھر 25 مئی 2023 کو انہیں چیئرمین پی ٹی اے مقرر کیا گیا تھا۔ اپیل میں اس بات کا ذکر بھی کیا گیا کہ چیئرمین پی ٹی اے قوانین اور ضوابط کے مطابق اپنے کام انجام دے رہے ہیں، اور یہ اپیل ان کی قانونی تعیناتی کو ثابت کرنے کے لیے دائر کی گئی ہے۔

(جاری ہے)

اسلام آباد ہائی کورٹ میں شہری اسامہ خلجی کی جانب سے ایڈووکیٹ اسد لادھا کے ذریعے دائر درخواست پر سماعت ہوئی تھی۔ جسٹس بابر ستار نے اس درخواست پر محفوظ فیصلہ سنایا، جس کے مطابق میجر جنرل (ر) حفیظ الرحمٰن کو پی ٹی اے کے چیئرمین کے عہدے سے ہٹانے کا فیصلہ دیا گیا تھا۔ عدالت نے کہا تھا کہ سلیکشن کمیٹی کے عمل میں شفافیت کی کمی تھی اور پی ٹی اے کی تقرری کے رولز کے مطابق 3 افراد کے پینل میں سے سب سے نیچے والے امیدوار کو منتخب کرنا قانونی طور پر درست نہیں تھا۔

میجر جنرل (ر) حفیظ الرحمٰن نے عدالت سے درخواست کی ہے کہ ان کی اپیل کو فوری سماعت کے لیے مقرر کیا جائے تاکہ اس اہم معاملے کا جلد فیصلہ ہو سکے۔اسلام آباد ہائی کورٹ نے حکومت کی جانب سے کی جانے والی تقرری کو شفافیت کے فقدان اور قانونی ساکھ کی کمی کے طور پر قرار دیا تھا۔ عدالت نے یہ بھی کہا کہ پی ٹی اے کے تقرری عمل میں معقول جواز اور قانونی بنیاد کی کمی تھی، جو حکومت کی ذمہ داریوں کی خلاف ورزی تھی۔اب تک چیئرمین پی ٹی اے میجر جنرل (ر) حفیظ الرحمٰن نے عدالت سے اپیل کی ہے کہ ان کی تعیناتی کو قانونی قرار دیا جائے، اور اس فیصلے کے خلاف انٹرا کورٹ اپیل دائر کر دی گئی ہے۔ اس مقدمے کی مزید سماعتوں اور فیصلوں کے بعد ہی واضح ہو گا کہ یہ معاملہ کس رخ پر جائے گا