ایشیائی ممالک میں پاکستان کاسرکاری قرضہ جی ڈی پی کے 70فیصد سے اوپر ہے ‘ علی عمران آصف

بدھ 17 ستمبر 2025 14:02

لاہور(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 17 ستمبر2025ء)سینئر ایگزیکٹو کمیٹی ممبر لاہور چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری علی عمران آصف نے کہا ہے کہ پاکستان کا مجموعی قرضہ جی ڈی پی کے 83.6فیصد کے برابر ہونا تشویش کا باعث ہے ،پاکستان میں فی کس سرکاری قرضے کا بوجھ اب 318,252روپے ہے جبکہ ایک دہائی قبل یہ فی کس 90,047روپے کی سطح پر تھا،سالانہ تقریباً 13فیصد کی شرح نمو سے یہ بوجھ ہر چھ سال میں دوگنا ہو رہا ہے۔

اپنے بیان میں انہوں نے کہا کہ سرکاری قرضے کی مجموعی مقدار نے بھی جی ڈی پی کے تناسب کے طور پر بڑھنے کا رجحان ظاہر کیا ہے، ڈیڑھ دہائی قبل2009-10میں یہ جی ڈی پی کا 54.6فیصد تھا جو 2014-15تک بڑھ کر 57.1فیصد تک پہنچ گیا اور 2019-20میں جی ڈی پی کے 76.6فیصد کی بلند ترین سطح پر جا پہنچا۔

(جاری ہے)

یہ شرح تیزی سے گر کر 2023-24میں جی ڈی پی کے 67.8فیصد پر آ گئی لیکن 2024-25میں دوبارہ بڑھ کر 70فیصد سے اوپر جا چکی ہے۔

انہوں نے کہا کہ سرکاری قرضے اور جی ڈی پی کے تناسب کا موازنہ منتخب ایشیائی ممالک کے ساتھ کیا جائے تو پاکستان میں یہ تناسب فی الوقت 70.2فیصد ہے،سب سے کم سطح بنگلہ دیش میں ہے جہاں سرکاری قرضہ جی ڈی پی کے 36.4فیصد کے برابر ہے،سب سے زیادہ سطح سری لنکا میں دیکھی گئی ہے جہاں یہ جی ڈی پی کے 96.8فیصد کے برابر ہے۔ بھارت میں یہ تناسب جی ڈی پی کے 57.1فیصد کے برابر ہے جبکہ انڈونیشیا ء اور تھائی لینڈ میں یہ بالترتیب 40.2فیصد اور 61.1فیصد ہے۔

انہوں نے کہا کہ جتنا زیادہ بجٹ خسارہ ہوگا اتنی ہی زیادہ ضرورت قرض لینے کی ہوگی تاکہ خسارہ پورا کیا جا سکے اور یوں قرضے کا تیز رفتار انبار لگتا جائے گا۔حکومت سے مطالبہ ہے کہ قرضے اتارنے کے لئے حکمت عملی مرتب کرے تاکہ پاکستان قرضوں کے چنگل سے باہر نکل سکے ۔