بلدیاتی نظام کو ہمیشہ سے جمہوریت کی نرسری کہا جاتا ہے،زبیر علی

بدھ 17 ستمبر 2025 20:05

پشاور(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 17 ستمبر2025ء)میئر پشاور زبیر علی نے کہا کہ بلدیاتی نظام کو ہمیشہ سے جمہوریت کی نرسری کہا جاتا ہے،یہ وہ پلیٹ فارم ہے جہاں سے سیاستدان اپنی عملی زندگی کا آغاز کرتے ہیں، عوام کے مسائل کو قریب سے دیکھتے ہیں اور خدمت کا تجربہ حاصل کرتے ہیں۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے اپنے میڈیا کو جاری بیان میں کیا۔

میئر پشاور زبیر علی نے کہا کہ جس طرح ایک طالب علم اگر نرسری اور پرائمری کی تعلیم حاصل نہیں کرتا تو وہ آگے ہائی اسکول اور کالج میں کامیاب نہیں ہو سکتا، اسی طرح کوئی سیاستدان اگر بلدیاتی نظام میں حصہ نہیں لیتا تو وہ ایک تجربہ کار اور کامیاب رہنما ثابت نہیں ہو سکتا۔ سیاست میں قدم رکھنے اور آگے بڑھنے کے لیے بلدیاتی نظام ایک لازمی زینہ ہے۔

(جاری ہے)

انہوں نے کہا کہ ہمارے ملک میں بدقسمتی یہ رہی کہ اس نظام کو کبھی وہ مقام نہیں ملا جس کا یہ حقدار تھا۔ پرویز مشرف کے دورِ حکومت میں یہ نظام سب سے زیادہ کامیاب اور موثر مانا گیا کیونکہ اس وقت اختیارات کو نچلی سطح تک منتقل کرنے کی پالیسی اپنائی گئی تھی۔ عوام نے بھی بھرپور جوش و خروش کے ساتھ اس میں حصہ لیا اور اسے حقیقی عوامی خدمت کا ذریعہ سمجھا۔

مگر اس دور کے بعد آنے والی حکومتوں نے اس نظام کو کمزور کر دیا۔ انہوں نے کہا کہ ناظمین، جنہیں عوامی خدمت کا موقع ملنا چاہیے تھا، وہ اختیارات اور فنڈز سے محروم کر دیے گئے۔انہوں نے کہا کہ خیبرپختونخوا میں پی ٹی آئی کی 13 سالہ حکومت کے منظور کردہ لوکل گورنمنٹ ایکٹ کے تحت بلدیاتی ممبران کی مثال سامنے ہے۔ سیاسی انتقام کی وجہ سے لوکل گورنمنٹ ایکٹ کو برائے نام اور مفلوج کر کے رکھ دیا جس کی وجہ سے عوام کو بنیادی سہولیات کی فراہمی بری طرح متاثر ہوئی اور ساڑھے تین سال کا عرصہ وہ محض اس امید پر گزار بیٹھے کہ شاید فنڈز فراہم کیے جائیں گے تاکہ وہ اپنے علاقوں میں چھوٹے موٹے منصوبے مکمل کر سکیں، اپنے ووٹروں کے سامنے سرخرو ہو سکیں اور اپنے عہدے کا وقار بچا سکیں۔

لیکن پورے دور میں نہ تو انہیں اختیارات ملے اور نہ ہی ایک روپیہ فنڈ دیا گیا۔ یہاں تک کہ عوامی سطح پر یہ کہا جانے لگا کہ بلدیتی ممبران کو مکھی مارنے کا اختیار بھی نہیں دیا گیا۔بلدیاتی ممبران نے بارہا احتجاج اور دھرنے دیے، لیکن حکومت کی بے حسی برقرار رہی۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ عوام اور نمائندوں دونوں کی دلچسپی ختم ہوگئی۔ انہوں نے کہا کہ حالیہ بلدیاتی ضمنی انتخابات اس کی سب سے بڑی مثال ہیں۔

913 خالی نشستوں کے مقابلے میں صرف 155 امیدواروں نے کاغذات نامزدگی جمع کروائے جبکہ باقی نشستوں پر کسی نے دلچسپی نہیں لی۔ یہ صورتحال اس بات کا منہ بولتا ثبوت ہے کہ جب بلدیاتی نمائندوں کو بااختیار نہ بنایا جائے اور فنڈز فراہم نہ ہوں تو عوامی اعتماد بھی ٹوٹ جاتا ہے اور نظام ناکامی کی طرف بڑھنے لگتا ہے۔یہ صورتحال بلدیاتی نظام کے لیے خطرے کی گھنٹی ہے۔

اگر اس کو فوری طور پر بحال اور فعال نہ کیا گیا تو آئندہ بھی یہی حال رہے گا کہ کوئی عزت دار اور سنجیدہ شخصیت بلدیاتی انتخابات میں حصہ لینے پر آمادہ نہیں ہوگی۔ اس کا واحد حل یہ ہے کہ حکومت اس نظام میں اصلاحات لائے، اس کو 2002 اور 2005 کی طرز پر بااختیار بنائے اور نچلی سطح پر فنڈز اور اختیارات منتقل کرے۔انہوں نے کہا کہ بلدیاتی نظام کو مضبوط کرنا عوامی سہولت کے ساتھ ساتھ ملکی جمہوریت کے لیے بھی ناگزیر ہے۔

یہ نظام ہی وہ نرسری ہے جہاں سے نئی قیادت جنم لیتی ہے اور سیاسی تربیت حاصل کرتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر ہم چاہتے ہیں کہ مستقبل میں ایک باصلاحیت، تجربہ کار اور عوامی خدمت کا جذبہ رکھنے والی قیادت پروان چڑھے تو بلدیاتی اداروں کو حقیقی معنوں میں فعال اور بااختیار بنانا ہوگا۔ ورنہ یہ نظام کاغذوں اور اعلانات تک محدود رہ جائے۔