ترکی: خواتین فنکاروں کے خلاف حکومتی پابندیاں

DW ڈی ڈبلیو پیر 22 ستمبر 2025 13:20

ترکی: خواتین فنکاروں کے خلاف حکومتی پابندیاں

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 22 ستمبر 2025ء) چھ ستمبر کے روز ماحول پرجوش تھا، جب تنگ لباس میں ملبوس چھ نوجوان خواتین نے استنبول کے ایک پارک کے اوپن ایئر پنڈال میں اسٹیج پر پروگرام پیش کیا۔ وہاں موجود 12,000 لوگوں کے ہجوم میں خوشی کی لہر دوڑ گئی جو موسیقی کی تھاپ پر رقص میں شامل ہوئے۔

ترکی کے گرل بینڈ 'مینی فیسٹ' میں موسیقار، مینا، ایسن، زینب سودا، ایمن ہلال، لیڈیا اور سویدا کا گروپ ہے، جسے فروری میں ایک ٹیلنٹ شو کے بعد تشکیل دیا گیا تھا۔

نوجوانوں کے لیے سادہ الفاظ پر مبنی ان کے نغمے اور پاپ پر مبنی ان کا رقص نوجوانوں میں کافی مقبول ہو چکا ہے۔ اس بینڈ کا پہلا البم، جو جولائی میں ریلیز ہوا تھا، ایک کامیاب ٹور کا باعث بنا۔

(جاری ہے)

تاہم استنبول کنسرٹ کے بعد بینڈ کا امید افزا مستقبل اب ماضی کی بات لگتا ہے۔ ترکی کا محکمہ انصاف اب ان سے "غیر مہذب اور غیر اخلاقی حرکات" اور "نمائش پرستی" کے بارے میں تحقیقات کر رہا ہے۔

اس کا کہنا ہے کہ اسٹیج شو نے "شرم، اخلاقیات اور معاشرے کی اخلاقی اقدار کی خلاف ورزی کی اور اسے مجروح کیا ہے۔" اس کے علاوہ، یہ دعوی بھی کیا گیا ہے کہ ان خواتین کا بچوں اور نوجوانوں پر برا اثر پڑ رہا ہے۔

خواتین فنکاروں کو نشانہ بنایا گیا

ترک صدر رجب طیب ایردوآن کے چیف ایڈوائزر اوکتای سارال نے ایکس پر اپنی ایک پوسٹ میں بینڈ کے اراکین کو "غیر اخلاقی، بے شرم، شیطانی مخلوق" قرار دیا اور "مزید مبینہ نمائشی کارروائیوں" سے روکنے کے لیے ان کے خلاف قانونی کارروائی کا مطالبہ کیا۔

انہوں نے بینڈ کی ایک تصویر بھی پوسٹ کی جس میں ان کے جسم کو دھندلا کر دیا گیا تھا۔

پوچھ گچھ کے بعد بینڈ نے ایک بیان جاری کیا جس میں اس بات پر زور دیا گیا کہ انہوں نے اپنے شو کی ذمہ داری قبول کی، لیکن یہ کہ ان کا مقصد کبھی کسی کو تکلیف پہنچانا نہیں تھا۔ البتہ فی الوقت عالمی سطح پر ترکی کی نمائندگی کرنے کے خواب انہیں ترک کرنا پڑا ہے۔

ایکس پر اپنی پوسٹ میں گروپ نے لکھا کہ ان کا ترکی کا دورہ، جس کے ٹکٹ ایک ہفتے پہلے فروخت ہو چکے تھے، منسوخ کر دیے گئے ہیں۔ "ہم اپنے سامعین کی دلچسپی اور محبت کے لیے ان کا شکریہ ادا کرتے ہیں۔"

'مینی فیسٹ' کے خلاف اس طرح کی قدغن کوئی الگ تھلگ واقعہ نہیں ہے۔ حالیہ برسوں میں محکمہ انصاف نے خواتین فنکاروں کو تیزی سے نشانہ بنایا ہے۔

ایک پرانے گانے کے بولوں کے حوالے سے، جو بظاہر مذہبی حساسیت کو ٹھیس پہنچاتے تھے، پاپ گلوکارہ سیزن اکسو کے خلاف بھی ایک زبردست مہم چلائی گئی۔

مشہور موسیقار گلشن کو مذہبی مدارس کے بارے میں اسٹیج پر کیے گئے ایک لطیفے پر گرفتار کیا گیا تھا۔

جنوری میں ایک آرٹسٹ ایجنسی کے مینیجر عیش باریم کو پہلے اجارہ داری قائم کرنے اور بھتہ خوری کی کوشش کے الزام میں قید کیا گیا اور پھر بعد میں 2013 کے گیزی پارک کے احتجاج کے دوران ان پر حکومت کا تختہ الٹنے میں مدد کرنے کا الزام لگایا گیا۔

اسکرین رائٹر مرو اوکتوم کو اس وقت گرفتار کیا گیا، جب ان کی سیریز "نیکڈ" کے بارے میں چار سال پرانے انٹرویو کا ایک اقتباس سوشل میڈیا پر وائرل ہوا۔ ان پر "جسم فروشی کی حمایت اور جرائم کو اکسانے" کا الزام عائد کیا گیا۔

مذہبی اتھارٹی دینیات کا فیصلہ کن کردار

ترکی کے سن 2021 میں خواتین کے خلاف تشدد سے متعلق استنبول کنونشن سے نکل جانے کے بعد سے خواتین پر دباؤ نمایاں طور پر بڑھ گیا ہے۔

ابتدا میں خواتین سیاستدانوں، ماہرین تعلیم اور کارکنوں کو نشانہ بنایا گیا، اس کے بعد صحافیوں اور وکلاء کو نشانہ بنایا گیا۔ حالیہ برسوں میں خواتین فنکاروں کو تیزی سے نشانہ بنایا گیا ہے۔

اس کا طریقہ کار اکثر ایک جیسا ہوتا ہے۔ سب سے پہلے، حکومت کے حامی کالم نگار تنقیدی مضامین لکھتے ہیں۔ پھر پرانے انٹرویوز یا کاموں کے اقتباسات کو سیاق و سباق سے ہٹا کر سوشل میڈیا پر پھیلا دیا جاتا ہے۔

آخر میں، حکومت کے حامی گروپس اور اسلامی بھائی چارے کے نام پر متحرک ہو جاتے ہیں اور حکام سے اس وقت تک کارروائی کرنے کا مطالبہ کرتے رہتے ہیں جب تک کہ پولیس ہدف بنائے گئے شخص کو گرفتار نہیں کر لیتی۔

تاریخ دان اور حقوق نسواں کے ماہر بیرن سونمیز نے اسے سیاسی حکمت عملی قرار دیا۔ ان کی رائے میں حکومت کرنے والی جسٹس اینڈ ڈیولپمنٹ پارٹی (اے کے پی) نے اپنے اقتدار کو محفوظ بنانے کے لیے گزشتہ 10 سالوں میں اپنی حکومتی پالیسی کی بنیاد مذہب کو بنایا ہے۔

وہ مانتی ہیں کہ ملک اب ایک ایسے مرحلے میں ہے جہاں مذہب سیاست کی بنیاد نہیں ہے بلکہ سیاسی مقاصد کے لیے اس کا مسلسل استحصال کیا جا رہا ہے۔

سونمیز نے کہا، "مذہبی اتھارٹی دینیات کا اس میں فیصلہ کن کردار ہے۔" اپنے جمعہ کے خطبات کے ذریعے، دینیات، جسے مذہبی امور کی صدارت بھی کہا جاتا ہے، ہفتہ وار فتوے شائع کرتی ہے، جن پر پابندی ضروری نہیں اور وہ صرف ایک رسمی رائے ہیں، تاہم اس کا مقصد معاشرے کو اپنی مرضی کے مطابق ڈھالنا ہے۔

سونمیز نے پچھلے سال کے خطبات کا تجزیہ کیا: یہ 30 فیصد خواتین، خاندان اور بچوں سے متعلق ہیں، جب کہ دیگر 30 فیصد جنسی رجحان سے متعلق ہیں، جسے "انسانی فطرت سے انحراف" اور "عالمی پروپیگنڈے کا نتیجہ" کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔

حکومت اختلاف کو دبا رہی ہے

سونمیز ایک دیندار مسلمان ہیں، جنہوں نے اگست میں خواتین کے پردے سے متعلق دینیات کے ایک خطبے کے خلاف بطور احتجاج اپنا اسکارف اتار دیا تھا۔

وہ اس پیش رفت کو بہت خطرناک سمجھتی ہیں، کیونکہ دینیات ہر جمعہ کو ملک بھر میں اپنی 90,000 سے زیادہ مساجد میں لاکھوں مردوں سے خطاب کرتی ہے۔ اس طرح کے فتوؤں میں حکومت بنیادی طور پر مردانہ تسلط کو مضبوط کرنے کا مطالبہ کرتی ہے۔

مبصرین کا کہنا ہے کہ اس کے اثرات نمایاں ہیں۔ زیربحث خطبہ کے فوراً بعد جو ردعمل سامنے آیا، اس نے سرخیاں بنائیں۔

ایک ڈاکٹر نے ایک نوجوان خاتون مریضہ کا علاج کرنے سے انکار کر دیا، کیونکہ وہ کراپ ٹاپ پہنے کر ہسپتال پہنچی تھیں۔

سونمیز نے کہا کہ خواتین پر بڑھتا ہوا ظلم اختلاف رائے کو خاموش کرنے کے جامع حکومتی منصوبے کا حصہ ہے اور اے کے پی اپنی گھٹتی ہوئی بنیاد کو بڑھتے ہوئے مذہبی دباؤ اور اختلاف کرنے والوں کو قانونی طور پر ہراساں کرنے کے ذریعے مستحکم کر رہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ مینی فیسٹ گروپ پر حملہ ان خواتین کے لیے ایک اور پیغام ہے، جو احکامات کی تعمیل کرنے سے انکار کرتی ہیں۔ اگرچہ فنکاروں کے ظاہری لباس اور رقص کی پرفارمنس پیش منظر میں ہیں، تاہم سونمیز کا خیال ہے کہ یہ بہت اہم ہے کہ ان نوجوان موسیقاروں نے اپنے گانوں میں "قانون، انصاف اور مساوات" جیسے مخالف نعرے لگائے۔

اس کے باوجود سرکاری وکیل کے دفتر نے جان بوجھ کر الزامات کو فحاشی، بے حیائی اور نمائشی تک محدود رکھا تاکہ خواتین کو نہ صرف ڈرایا جا سکے بلکہ انہیں بدنام بھی کیا جا سکے۔

ان کے سیاسی موقف کو نظر انداز کیا گیا اور بحث ان کے جسم، شرم اور اخلاق تک محدود رہی۔

اے کے پی کا برسوں سے دعویٰ رہا ہے کہ اس نے خواتین کو آزاد کیا ہے، خاص طور پر قدامت پسند اور مذہبی خواتین کو اور ان کے لیے تعلیم، سیاست اور اس سے آگے کے دروازے کھولے ہیں۔

سونمیز اس سے متفق نہیں ہیں، اور دلیل دیتی ہیں کہ اگرچہ بہت سے شعبوں میں خواتین کے تناسب میں اضافہ ہوا ہے، لیکن یہ صرف ایک دکھاوا ہے۔

ص ز/ ج ا (الماس ٹاپکو)