مغربی طاقتوں کے فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے پر اسرائیل برہم

DW ڈی ڈبلیو پیر 22 ستمبر 2025 13:40

مغربی طاقتوں کے فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے پر اسرائیل برہم

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 22 ستمبر 2025ء) فرانس، بیلجیم اور نیوزی لینڈ نے بھی اسرائیلی مخالفت کے باوجود فلسطین کو تسلیم کرنے کے منصوبوں کا اعلان کیا ہے۔ قبل ازیں اتوار کو برطانیہ، کینیڈا اور آسٹریلیا ایسے نمایاں مغربی ممالک بن گئے، جنہوں نے فلسطینی ریاست کو تسلیم کر لیا ہے۔

غزہ کی محصور پٹی میں فلسطینیوں نے اس اقدام کو فتح قرار دیا تاہم اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو یہ واضح کر چکے ہیں کہ فلسطینی ریاست کبھی قائم نہیں ہو گی۔

امریکہ نے بھی اپنے مغربی اتحادیوں کے اس اقدام کو ''نمائشی‘‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ وہ اسرائیل اور حماس کے تنازعے کا سفارتی حل تلاش کرنے پر توجہ مرکوز کیے ہوئے ہے۔

اسرائیل کو غزہ کی جنگ پر شدید بین الاقوامی دباؤ کا سامنا ہے، جس نے فلسطینی خطے میں ایک ہولناک انسانی بحران کو جنم دیا ہے۔

(جاری ہے)

نیتن یاہو نے فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کی کوشش کو ''مضحکہ خیز‘‘ قرار دیا اور کہا کہ اس سے اسرائیل کے وجود کو خطرہ لاحق ہو گا۔

اسرائیلی وزیر اعظم نے کہا، ''دریائے اردن کے مغرب میں کوئی فلسطینی ریاست قائم نہیں کی جائے گی۔ یہ نہیں ہو گا۔‘‘ بعد ازاں انہوں نے مغربی کنارے میں یہودی بستیوں کو مزید توسیع دینے کا اعلان بھی کیا، جس پر اسرائیل 1967 سے قابض ہے اور اس اسرائیلی قبضے کو بین الاقوامی قانون کے تحت غیر قانونی قرار دیا جاتا ہے۔

’اخلاقی فتح‘

یہ اقدامات فلسطینیوں کے لیے ایک تاریخی موڑ ہے، جن کی برسوں سے اپنی ایک آزاد ریاست کے قیام کی خواہش رہی ہیں۔

اس سے قبل طاقتور مغربی ممالک نے طویل عرصے تک یہ موقف اختیار کیے رکھا کہ فلسطین کو تسلیم کرنا صرف اسرائیل کے ساتھ مذاکراتی امن معاہدے کے تحت ہونا چاہیے۔

اب تک اقوام متحدہ کے تین چوتھائی ارکان، یعنی 193 میں سے کم از کم 145 ممالک، فلسطین کو تسلیم کر چکے ہیں۔

آسٹریلیا کے وزیر اعظم انتھونی البانیزی کا کہنا ہے یہ قدم ''فلسطینی عوام کی جائز اور دیرینہ امنگوں کو تسلیم کرتا ہے،‘‘ جبکہ پرتگالی وزیر خارجہ پاؤلو رنگل نے دو ریاستی حل کو ''منصفانہ اور پائیدار امن کا واحد راستہ‘‘ قرار دیا۔

برطانوی وزیر اعظم کیئر اسٹارمر نے کہا کہ برطانیہ نے باضابطہ طور پر فلسطینی ریاست کو اس لیے تسلیم کیا تاکہ''فلسطینیوں اور اسرائیلیوں کے لیے امن کی امید اور دو ریاستی حل کو زندہ رکھا جا سکے۔‘‘

غزہ میں عام شہریوں نے اس فیصلے پر خوشی کا اظہار کیا۔ 35 سالہ سلوٰی منصور، جو رفح سے بے دخل ہو کر المَواسی میں مقیم ہیں، نے کہا، ''یہ اقدام اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ دنیا آخرکار ہماری آواز سننے لگی ہے اور یہ بذات خود ایک اخلاقی فتح ہے۔

‘‘

انہوں نے مزید کہا، ''تمام درد، اموات اور قتل عام کے باوجود ہم کسی بھی چھوٹی سی امید سے چمٹے رہتے ہیں۔‘‘

فلسطینی صدر محمود عباس نے ان اعترافات کو ''ایک منصفانہ اور پائیدار امن کے حصول کی طرف ایک اہم اور ضروری قدم‘‘ قرار دیا۔

اگرچہ یہ بڑی حد تک علامتی قدم ہے لیکن اس نے ان چار ممالک کو امریکہ اور اسرائیل کے خلاف کھڑا کر دیا ہے۔

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے گزشتہ ہفتے اسٹارمر سے ملاقات کے بعد کہا تھا کہ ''ہمارے چند اختلافات میں سے ایک فلسطینی ریاست کے معاملے پر ہے۔‘‘

خصوصی ذمہ داری

کئی ممالک جو طویل عرصے سے اسرائیل کے قریبی اتحادی سمجھے جاتے ہیں، انہوں نے اپنے موقف پر نظرثانی کی ہے، خاص طور پر جب اسرائیل نے غزہ میں اپنی جارحیت کو تیز کر کر رکھا ہے۔

غزہ میں جاری اسرائیلی فوجی کارروائی سات اکتوبر 2023 کو حماس کے جنوبی اسرائیل پر حملے سے شروع ہوئے تھی۔ حماس کے اس حملے میں 1,219 افراد مارے گئے تھے، جن میں زیادہ تر عام شہری تھے۔

دوسری جانب غزہ میں حماس کے زیر انتظام وزارتِ صحت، جس کے جاری کردہ اعدادوشمار کو اقوام متحدہ معتبر سمجھتا ہے، کے مطابق اسرائیلی جوابی کارروائیوں میں کم از کم 65,208 افراد ہلاک ہو چکے ہیں، جن میں اکثریت عام شہریوں کی ہے۔

برطانیہ کی حکومت پر عوامی دباؤ بڑھتا جا رہا تھا اور ہر ماہ ہزاروں لوگ سڑکوں پر احتجاج کرتے رہے۔ اتوار کو اسٹارمر نے کہا کہ برطانیہ ''مشرق وسطیٰ میں بڑھتے ہوئے ہولناک حالات‘‘ کے پیشِ نظر یہ اقدام کر رہا ہے اور جنگ بندی کا مطالبہ دہرایا۔ انہوں نے حماس پر مزید پابندیاں لگانے کے منصوبے کی بھی تصدیق کی اور کہا کہ فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنا ’’انعام‘‘ نہیں ہے۔

تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ فلسطینی ریاست کے قیام سے پہلے بھی کئی رکاوٹیں موجود ہیں، بشمول یہ فیصلہ کہ اس علاقے کو کون چلائے گا۔

امریکی محکمہ خارجہ کے ایک ترجمان نے کہا، ''ہماری ترجیحات واضح ہیں: یرغمالیوں کی رہائی، اسرائیل کا تحفظ، اور پورے خطے میں امن و خوشحالی جو صرف اس وقت ممکن ہے جب وہ حماس سے آزاد ہو۔

ادارت: صلاح الدین زین، شکور رحیم