ایران میں سزائے موت کی منتظر شریفہ محمدی کا کیس؟

DW ڈی ڈبلیو پیر 22 ستمبر 2025 11:20

ایران میں سزائے موت کی منتظر شریفہ محمدی کا کیس؟

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 22 ستمبر 2025ء) ایران میں مزدوروں کے حقوق کی معروف کارکن شریفہ محمدی دسمبر 2023 سے جیل میں قید ہیں۔ 46 سالہ کارکن اور انجینیئر پر ایران میں "ریاست کے خلاف مسلح بغاوت" کا الزام ہے اور انہیں ایک بار پھر سے موت کی سزا کا سامنا ہے۔

پہلے انہیں 2024 میں موت کی سزا سنائی گئی تھی اور پھر 2025 کے اوائل میں دوبارہ موت کی سزا سنائی گئی، اور اگست میں سپریم کورٹ نے اس فیصلے کو برقرار رکھا۔

کارکنوں کے حقوق کے لیے ان کی گہری وابستگی نے حکام کی توجہ ان کی جانب دلائی۔ وہ بحیرہ کیسپین پر ایران کے ساحلی شہر رشت میں مزدور تنظیموں کی تشکیل کردہ ایک کمیٹی کی رکن تھیں، جہاں وہ اپنے 13 سالہ بیٹے سمیت اپنے خاندان کے ساتھ کام کرتی اور رہا کرتی تھیں۔

(جاری ہے)

حکومت اس کمیٹی کو "اپوزیشن گروپ" سمجھتی ہے۔

وکیل مرضیہ محبی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ ایرانی فوجداری قانون کے تحت تین جرائم: خدا کے خلاف جنگ (محاربہ)، زمین پر فساد و بدعنوانی اور بغاوت کے لیے سزا موت مقرر کی گئی ہے۔

وہ کہتی ہیں کہ اس "قانون کی متعلقہ دفعات اتنی مبہم الفاظ میں ہیں کہ جج ان کا اطلاق تقریباً کسی بھی قسم کے احتجاج یا سیاسی سرگرمی پر کر سکتے ہیں۔"

محبی دو سال سے فرانس میں جلاوطنی کی زندگی گزار رہی ہیں۔ ایران میں انہوں نے خواتین وکلاء کا ایک ایسا نیٹ ورک بنایا ہے، جو بغیر کسی الزام یا مشکل حالات میں قید خواتین کی نمائندگی کرتا ہے۔

ستمبر 2022 میں، 22 سالہ مہسا امینی کی پولیس حراست میں موت کے بعد ملک بھر میں احتجاج شروع ہو گئے۔ امینی نے مبینہ طور پر خواتین کے لیے لازمی سر کو ڈھانپنے والا لباس صحیح طریقے سے نہیں پہن رکھا تھا، اسی لیے ان کو گرفتار کیا گیا تھا۔ اس کے خلاف احتجاجی مظاہروں کے دوران "عورت، زندگی، آزادی" کے نعرے کے تحت ایک تحریک نے جنم لیا، جو خواتین کے خلاف لازمی سر پر اسکارف اور منظم امتیازی سلوک کے خلاف مزاحمت کی علامت بن گئی۔

حکومت نے ان مظاہروں کو منظم طریقے سے دبانے کے دوران کئی خواتین وکلاء کو گرفتار کر لیا۔ شمالی ایرانی شہر مشہد کی ایک عدالت نے اس سے پہلے ہی محبی کے خلاف کارروائی شروع کر دی کہ وہ گرفتار کیے گئے مظاہرین کو قانونی مدد فراہم کر سکتیں۔

مبہم قوانین کے تحت سخت سزائیں

محبی کا کہنا ہے کہ ایران میں، "عام لوگوں کو جلدی سے 'مجرموں' میں تبدیل کرنا مشکل بات نہیں ہے۔

یہ طرز عمل اسلامی جمہوریہ کے بنائے ہوئے قوانین پر مبنی آئینی طریقہ کار نہیں، بلکہ حکومت کی جانب سے سکیورٹی کے بہانے کسی بھی قسم کی شہری سرگرمی کو دبانے کی خواہش کا اظہار ہے۔ یہ اس بات کو بھی ظاہر کرتا ہے کہ بحران کے وقت بھی، حکومت گھریلو مخالفت کو دبانے کو اپنا سب سے اہم کام سمجھتی ہے۔"

شریفہ محمدی حقوق نسواں کی علمبردار اور سزائے موت کی مخالف رہی ہیں۔

2023 میں ان کی گرفتاری کے بعد، ان کے خاندان کو یہ تک نہیں معلوم تھا کہ انہیں مہینوں تک کہاں رکھا گیا، یا کیوں رکھا گیا تھا۔ محمدی نے بعد میں اطلاع دی کہ انہوں نے 200 سے زیادہ دن قید تنہائی میں گزارے، جہاں ان پر تشدد اور زیادتی کی گئی۔

جون 2024 میں، رشت کی ایک عدالت نے محمدی کو "بغاوت" کے جرم میں موت کی سزا سنائی۔ پھر ایک اعلیٰ عدالت نے اکتوبر 2024 میں فیصلے کو کالعدم قرار دیتے ہوئے دوبارہ مقدمہ چلانے کا حکم دیا۔

لیکن ایک نئے مقدمے کی سماعت کے بعد، فروری 2025 میں ان کی سزائے موت کو برقرار رکھا گیا۔

سماجی اور صنفی مساوت کی محقق فاطمہ کریمی کہتی ہیں، "اسلامی جمہوریہ ایران کے قوانین کے تحت، باغی وہ شخص ہے جو براہ راست حکومت کے خلاف مسلح بغاوت میں ملوث رہا ہو، جبکہ شریفہ کا مسلح کارروائیوں سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ اس کا کوئی ثبوت بھی نہیں ہے۔

شریفہ نے جو کچھ بھی کیا وہ مزدوروں کے احتجاج کے تناظر میں یونین کی ایک سرگرمی تھی، جو کسی بھی طرح بغاوت کی مجرمانہ تعریف سے مطابقت نہیں رکھتی۔"

ایران اور اس سے باہر بھی تنقید

انسانی حقوق کی تنظیموں نے شریفہ محمدی کے خلاف مقدمہ میں طریقہ کار کی سنگین خامیوں کی اطلاع دی ہے اور اسے سیاسی طور پر محرک ٹرائل قرار دیا ہے۔

مثال کے طور پر، موت کی سزا جن دو مختلف ججوں نے سنائی، وہ آپس میں قریبی رشتہ دار ہیں۔ کرمنل کورٹ پہلے چیئرمین احمد درویش-گفتار، فوجداری عدالت دوم کے پریزائیڈنگ جج محمد علی درویش-گفتار کے بیٹے ہیں۔

اس کیس پر بین الاقوامی سطح پر بھی شدید تنقید ہوئی ہے۔ جرمنی، فرانس اور سویڈن سمیت کئی یورپی ٹریڈ یونینوں کے ساتھ ساتھ انٹرنیشنل ٹریڈ یونین کنفیڈریشن نے فیصلے کو کالعدم قرار دینے اور محمدی کی فوری رہائی کا مطالبہ کیا ہے۔

ان کی سزائے موت پر ایران میں بھی تنقید بڑھ رہی ہے۔ ایرانی ٹیچرز ٹریڈ ایسوسی ایشن نے ایک بیان میں سزائے موت کو خوف پھیلانے اور اجتماعی مزدور تحریکوں کو دبانے کا ذریعہ قرار دیتے ہوئے اس فیصلے کو "غیر انسانی اور غیر منصفانہ" قرار دیتے ہوئے اس کی مذمت کی ہے۔

اگست کے اوائل میں گنے کے ایک کارخانے میں ایک پرامن اجتماع کی ایک ویڈیو بھی انٹرنیٹ پر گردش کر رہی ہے، جہاں شرکاء نے محمدی کے لیے منصفانہ ٹرائل کا مطالبہ کیا تھا۔

اس سلسلے میں ہفت تپے شوگرکین ایگرو انڈسٹری کمپنی کی ورکس کونسل کی جبر کے خلاف اور مزدوروں کے حقوق کی حمایت میں سب سے زیادہ سرگرم آوازوں میں سے ایک رہی ہے۔

ایمنسٹی انٹرنیشنل اور متعدد ایرانی اور بین الاقوامی انسانی حقوق کی تنظیموں نے سزائے موت کو فوری واپس لینے کا مطالبہ کیا ہے۔

ص ز/ ج ا (شبنم فان ہیئن)