جنرل اسمبلی سالانہ اجلاس کا آغاز خواتین کی خودمختاری کے جشن کے ساتھ

یو این منگل 23 ستمبر 2025 03:00

جنرل اسمبلی سالانہ اجلاس کا آغاز خواتین کی خودمختاری کے جشن کے ساتھ

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ UN اردو۔ 23 ستمبر 2025ء) اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی صدر اینالینا بیئربوک نے بیجنگ اعلامیے کی 30ویں سالگرہ کے موقع پر منعقدہ بین الاقوامی کانفرنس میں ان افراد کی ہمت کو سراہا ہے جنہوں نے اعلامیے کے ہر جملے اور ہر لفظ پر عملدرآمد یقینی بنانے کے لیے لازوال جدوجہد کی ہے۔

اس کانفرنس میں رکن ممالک، سول سوسائٹی کی تنظیموں، تعلیمی اداروں اور نجی شعبے کے نمائندوں نے بیجنگ اعلامیے پر عملدرآمد کو تیز کرنے کے طریقوں پر گفتگو کی۔

اس موقع پر اسمبلی کی صدر کا کہنا تھا کہ ہال میں موجود بہت سے لوگ آج ان عہدوں پر فائز ہیں جن کا حصول انہیں اپنے ایام جوانی میں باآسانی ممکن دکھائی نہیں دیتا تھا لیکن اب آئندہ نسل کے لیے یہ معمول کی بات ہے۔

(جاری ہے)

Tweet URL

انہوں نے تین دہائیاں قبل بیجنگ کانفرنس میں اس وقت امریکہ کی خاتون اول ہلیری کلنٹن کے الفاظ دہراتے ہوئے کہا کہ 'خواتین کے حقوق انسانی حقوق ہیں۔

'

1995 میں چین دارالحکومت میں ہونے والے اس تاریخی اجلاس میں دنیا بھر کے ممالک نے اس اعلامیہ کی متفقہ منظوری دی تھی جو خواتین کے حقوق کو فروغ دینے کے لیے ایک رہنما دستاویز سمجھی جاتی ہے۔

غیرمعمولی سیاسی عزم

اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتیرش نے بیجنگ اعلامیے کو خواتین کے حقوق سے متعلق اب تک کا سب سے بڑا عالمی سیاسی عزم قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس اعلامیے نے دنیا بھر میں خواتین کے لیے قانونی تحفظ، سیاسی شراکت داری، اور تعلیم کے فروغ میں مدد فراہم کی ہے۔

صنفی مساوات کے لیے اقوام متحدہ کے ادارے 'یو این ویمن' کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر سیما بحوث نے کہا کہ آج تعلیم مکمل کرنے والے لڑکیوں کی تعداد تاریخ کے کسی بھی دور کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہے۔ دنیا بھر کے قانون ساز اداروں میں خواتین کی تعداد تقریباً دو گنا بڑھ چکی ہے اور صرف گزشتہ پانچ سال میں ہی دنیا بھر میں صنفی حوالے سے تقریباً 100 امتیازی قوانین کو ختم کیا گیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ترقی کے ہر قدم نے ایک ہی حقیقت کو ثابت کیا کہ صنفی مساوات فائدہ مند ہے۔ لیکن یہ پیش رفت کافی نہیں۔

وعدے نہیں، عمل

'یو این ویمن' کی ایک نئی رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ صنفی مساوات سے متعلق پائیدار ترقی کے ہر ہدف پر پیش رفت بے سمت ہے۔ 67 کروڑ 60 لاکھ خواتین اور لڑکیاں ایسے علاقوں میں رہتی ہیں جو مسلح تنازعات کا شکار یا ان سے قریب ہیں اور 1990 کی دہائی کے بعد یہ سب سے بڑی تعداد ہے۔

خواتین اور لڑکیوں پر تشدد کے خاتمے سے متعلق اقوام متحدہ کے 'سپاٹ لائٹ' پروگرام کی عالمی سفیر سیلیا سواریزنے کہا کہ اس پروگرام نے یہ ثابت کیا ہے کہ اس جدوجہد میں مثبت اور ٹھوس نتائج حاصل کرنا ممکن ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ عالمی رہنما ایسی قیادت کا مظاہرہ کریں جو خواتین کے حقوق کے معاملے میں اصلاحات کو فروغ دے۔

داعش کے جنسی استحصال سے متاثرہ عراقی خاتون نادیہ مراد نے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ دنیا بھر میں ان گنت خواتین کو ناانصافی کا سامنا ہے۔

عالمی برادری نچلی سطح پر کام کرنے والی خواتین کی تنظیموں کو مالی مدد فراہم کرے، امن و سلامتی کے عمل میں خواتین کی شمولیت کو یقینی بنائے اور ان کے مجرموں کو انصاف کے کٹہرے میں لائے۔

ان کا کہنا تھا کہ اگلی نسل کی خواتین اور لڑکیاں صرف وعدوں کی نہیں بلکہ انصاف، مساوات اور وقار کے ورثے کی حقدار ہیں۔