
صنفی مساوات: بیجنگ اعلامیہ کی کامیابیاں، ناکامیاں اور آئندہ کا لائحہ عمل
یو این
منگل 23 ستمبر 2025
03:00

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ UN اردو۔ 23 ستمبر 2025ء) خواتین کے حقوق پر بیجنگ اعلامیہ کی منظوری سے تین دہائیوں کے بعد بھی خواتین اور لڑکیوں کو ناقابل قبول تشدد اور تفریق کا سامنا ہے۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اعلیٰ سطحی اجلاس میں اس مسئلے پر قابو پانے کے لیے اب تک ہونے والے کام اور آئندہ اقدامات پر بطور خاص بات چیت ہو گی۔
خواتین کے لیے اقوام متحدہ کا ادارہ 'یو این ویمن' اور ادارہ برائے معاشی و سماجی امور (ڈیسا) خبردار کر چکے ہیں کہ پائیدار ترقی کے لیے صنفی مساوات سے متعلق اہداف پر پیش رفت انتہائی سست روی کا شکار ہے۔
رواں سال صنفی مساوات کی صورتحال پر ان اداروں کی رپورٹ میں خبردار کیا گیا ہے کہ دنیا بھر میں 10 فیصد خواتین انتہائی درجے کی غربت کا شکار ہیں اور 2030 تک 351 ملین خواتین اور لڑکیوں کے لیے یہ صورتحال تبدیل نہیں ہو گی۔(جاری ہے)
بلامعاوضہ نگہداشت کرنے والی 708 ملین خواتین افرادی قوت کی منڈی کا حصہ نہیں ہیں۔
جو خواتین کام کرتی ہیں انہیں مردوں کے برابر اجرت نہیں ملتی۔ دنیا کے بہت سے حصوں میں خواتین زمین کی ملکیت حاصل نہیں کر سکتیں، انہیں مالیاتی خدمات اور باوقار روزگار تک رسائی نہیں ہوتی اور وہ ترقی کے لیے درکار ذرائع تک رسائی سے محروم رہتی ہیں۔رپورٹ کے مطابق، خواتین اور لڑکیوں کے خلاف تشدد بھی جاری ہے۔ ایک تہائی خواتین کو اپنی زندگی میں کسی نہ کسی وقت جسمانی یا جنسی تشدد کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
676 ملین خواتین جنگ زدہ علاقوں میں یا ان سے 50 کلومیٹر فاصلے پر رہتی ہیں جو 1990 کی دہائی کے بعد سب سے بڑی تعداد ہے۔صنفی مساوات کی مخالفت
بعض ممالک میں خواتین کے حقوق کے لیے برسوں کی جدوجہد سے حاصل کی گئی کامیابیاں اب غیر معمولی مخالفت اور محدود ہوتی شہری آزادیوں کے باعث خطرے میں پڑ گئی ہیں۔ 1995 میں بیجنگ میں منعقدہ چوتھی عالمی خواتین کانفرنس ایک تاریخی پیش رفت تھی جو صنفی مساوات کے فروغ میں ایک اہم سنگ میل سمجھی جاتی ہے۔
اس اجلاس کے نتیجے میں 'بیجنگ اعلامیہ اور لائحہ عمل' منظور کیا گیا جو خواتین کو درپیش مسائل اور ان کے حل پر مبنی ایک جامع منصوبہ تھا۔ اس میں غربت، تعلیم، تشدد، مسلح تنازعات پر قابو پانے میں خواتین کے کردار اور حکومت و فیصلہ سازی میں ان کی شمولیت جیسے اہم معاملات شامل تھے۔ دنیا کے 189 ممالک کی حکومتوں نے متفقہ طور پر اعلان کیا کہ مردوں اور خواتین کے درمیان برابری انسانی حق ہے اور یہ نہ صرف سماجی انصاف کے حصول کے لیے ضروری ہے بلکہ ترقی اور امن کے لیے بھی بنیادی شرط ہے۔
مثبت اشاریے
آج، دنیا بھر میں خواتین اور لڑکیوں کے لیے قانونی تحفظ میں نمایاں بہتری آئی ہے۔ 193 ممالک میں صنفی بنیاد پر تشدد سے نمٹنے کے لیے 1,583 قوانین نافذ کیے جا چکے ہیں جبکہ 1995 میں یہ تعداد صرف 12 ممالک تک محدود تھی۔ 100 سے زیادہ ممالک میں پولیس کو یہ تربیت دی جا چکی ہے کہ تشدد کا شکار ہونے والی خواتین کی مدد کیسے کی جا سکتی ہے۔
کام کی جگہوں پر صنفی امتیاز کے خلاف قوانین میں بھی خاطر خواہ اضافہ ہوا ہے جس سے خواتین کو معاشی طور پر بااختیار بنانے میں مدد ملی ہے۔ بلامعاوضہ نگہداشت یا دیکھ بھال کے کام کا بوجھ کم کرنے کے لیے نئی خدمات متعارف کرائی گئی ہیں اور تعلیم کے تمام درجوں میں مرد و خواتین کے درمیان فرق بتدریج کم ہو رہا ہے۔
قیام امن کے شعبے میں بھی خواتین کے کردار میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔
دنیا بھر میں اب خواتین، امن اور سلامتی کے موضوع پر 112 قومی لائحہ عمل موجود ہیں جبکہ 2010 میں یہ تعداد صرف 19 تھی۔ یہ تمام کامیابیاں اس بات کا ثبوت ہیں کہ عالمی سطح پر عزم، قانون سازی اور عملی اقدامات کے ذریعے صنفی مساوات کی جانب مؤثر پیش رفت ممکن ہے تاہم، اب بھی اس سمت میں بہت سا کام باقی ہے۔
پیش رفت کی قیمت
22 ستمبر کو اس موضوع پر منعقد ہونے والے اعلیٰ سطحی اجلاس میں اقوام متحدہ کے رکن ممالک، سول سوسائٹی کی تنظیمیں، تعلیمی اداروں اور نجی شعبے کے نمائندے اس بات پر تبادلہ خیال کریں گے کہ بیجنگ اعلامیہ پر عمل درآمد کو کیسے تیز کیا جا سکتا ہے اور متعلقہ اقدامات کے لیے وسائل کیسے فراہم کیے جا سکتے ہیں۔
'یو این ویمن' کے مطابق، خواتین پر سرمایہ کاری کا مطلب پورے معاشرے پر سرمایہ کاری کے مترادف ہے۔ اگر حکومتیں فوری طور پر عملی اقدامات کریں تو 2050 تک خواتین میں انتہائی غربت کی شرح 9.2 فیصد سے کم ہو کر کر 2.7 فیصد تک لائی جا سکتی ہے جس سے عالمی معیشت کو 342 ٹریلین ڈالر کا فائدہ پہنچ سکتا ہے۔
تاہم، اس وقت جب صنفی مساوات کے لیے مزید وسائل مختص کرنے کا مطالبہ کیا جا رہا ہے تو کئی ممالک نہ صرف ان اقدامات کے لیے مالی وسائل میں کٹوتی کر رہے ہیں بلکہ معلومات کے حصول جیسے اہم شعبوں پر بھی توجہ میں کمی آ رہی ہے۔
اس وقت دنیا بھر میں خواتین کی وزارتوں اور صنفی مساوات سے متعلق نصف ادارے ہی ایسے ہیں جن کے پاس اپنے کام کو مؤثر طریقے سے انجام دینے کے لیے درکار وسائل موجود ہیں۔'یو این ویمن' کی سارا ہینڈرکس کے مطابق، یہ صورتحال دنیا بھر میں اس حوالے سے سیاسی عزم کی کمی کا نتیجہ ہے جہاں جنگ کو انسانی حقوق اور مساوات پر ترجیح دی جا رہی ہے۔ دنیا ہر سال اسلحے کی خریداری پر 2.7 ٹریلین ڈالر خرچ کرتی ہے لیکن خواتین کے حقوق اور صنفی مساوات کے فروغ کے لیے درکار 320 ارب ڈالر مہیا نہیں ہو پاتے۔

صنفی عدم مساوات کی ایک اور صدی؟
بائیس ستمبر کو ہونے والے اجلاس کی صدارت جنرل اسمبلی کی نئی صدر اینالینا بیئربوک کریں گی جو ادارے کی 80 سالہ تاریخ میں یہ عہدہ سنبھالنے والی پانچویں خاتون ہیں۔
اعلیٰ سطحی ہفتے کے اختتام پر بیئربوک اس اجلاس کی بھی صدارت کریں گی جس میں 2027 سے اقوامِ متحدہ کے سیکرٹری جنرل کا عہدہ سنبھالنے والی شخصیت کا انتخاب کیا جائے گا۔ مختلف حلقوں سے یہ سوال بھی کیا جا رہا ہے کہ اب تک کوئی خاتون اس اعلیٰ ترین عالمی منصب پر فائز کیوں نہیں ہو سکی۔
دنیا بھر میں خواتین اب بھی حکومت اور فیصلہ سازی میں نمائندگی سے بڑی حد تک محروم ہیں۔ اس وقت 27 فیصد پارلیمانی نشستیں خواتین کے پاس ہیں اور قائدانہ عہدوں پر ان کی نمائندگی صرف 30 فیصد ہے۔ 113 ممالک ایسے ہیں جہاں آج تک کوئی خاتون سربراہ مملکت نہیں بنی۔ اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ اگر یہی صورتحال برقرار رہی تو قیادت کے شعبے میں صنفی مساوات حاصل کرنے میں ایک صدی لگ سکتی ہے۔
مزید اہم خبریں
-
یو این جنرل اسمبلی: 80ویں اجلاس کی کارروائی براہ راست دیکھیں
-
صنفی مساوات: بیجنگ اعلامیہ کی کامیابیاں، ناکامیاں اور آئندہ کا لائحہ عمل
-
جنرل اسمبلی میں اقوام متحدہ کی 80ویں سالگرہ کا جشن
-
جنرل اسمبلی سالانہ اجلاس کا آغاز خواتین کی خودمختاری کے جشن کے ساتھ
-
ایسٹونیا کی فضائی حدود کی روسی خلاف ورزیاں ناقابل قبول، میروسلاو جینکا
-
پائیدار ترقی کے اہداف کا حصول تیزتر کرنے کی ضرورت، یو این چیف
-
گوجرانوالا میں جیل میں جو بیت رہی ہے ایک انتہائی دلخراش داستان ہے
-
توشہ خانہ 2 کا جھوٹا کیس بھی مکمل طور پر زمین بوس ہو چکا
-
27 ستمبر کے پشاور جلسے میں پوری قوم شرکت کرے
-
کس قدر غیر انسانی عمل ہے کہ گوجرانوالہ میں دو سال سے بےگناہ قید قاسم کھوکھر کا بروقت علاج نہیں کروایا گیا
-
یورپی ممالک نیٹو کی طرز پر دفاع کرسکتے ہیں تو مسلم ممالک کیوں نہیں کرسکتے؟
-
پاکستان سعودی عرب دفاعی معاہدہ میں ایران سمیت دیگر اسلامی ممالک کو بھی شامل ہونا چاہیے
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.