رکن ممالک کو دنیا پر اقوام متحدہ کی اہمیت ثابت کرنا ہوگی، بیئربوک

یو این بدھ 24 ستمبر 2025 06:45

رکن ممالک کو دنیا پر اقوام متحدہ کی اہمیت ثابت کرنا ہوگی، بیئربوک

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ UN اردو۔ 24 ستمبر 2025ء) اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی صدر اینالینا بیئربوک نے کہا ہے کہ رکن ممالک کو دنیا بھر کے لوگوں پر ثابت کرنا ہو گا کہ یہ ادارہ کیوں اہم ہے اور آئندہ دہائیوں میں اس کے بنیادی اصولوں کی پاسداری کرنی ہو گی۔

جنرل اسمبلی کے 80ویں اجلاس میں عام مباحثے کے آغاز پر تقریر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ یہ اجلاس خوشی منانے کا موقع ہونا چاہیے تھا لیکن دنیا کو غیرمعمولی حالات کا سامنا ہے اور غزہ، یوکرین، ہیٹی اور دیگر علاقوں میں جاری تنازعات اور بحرانوں نے حالات کو سنگین بنا دیا ہے۔

اسی لیے، انہوں نے کہا کہ بدقسمتی سے یہ خوشی منانے کا نہیں بلکہ خود سے یہ سوال کرنے کا وقت ہے کہ اقوام متحدہ کہاں ہے؟ دنیا کی موجودہ صورتحال کو دیکھتے ہوئے واضح طور پر رکن ممالک کو ہر معاملے میں مزید بہتر کارکردگی دکھانے کی ضرورت ہے۔

(جاری ہے)

یو این منشور کی اہمیت

اینالینا بیئربوک کا کہنا تھا کہ بین الاقوامی برادری کو چاہیے کہ وہ ان ناکامیوں کو بنیاد بنا کر مایوسی پھیلانے والوں کو موقع نہ دے جو یہ کہتے ہیں کہ اقوام متحدہ مالی وسائل کا ضیاع ہے یا فرسودہ اور غیرمتعلقہ ہو چکا ہے۔

انہوں نے واضح کیا کہ جب اقوام متحدہ کے منشور کے اصولوں کو نظرانداز کیا جاتا ہے تو یہ منشور یا اقوام متحدہ کی بطور ادارہ ناکامی نہیں ہوتی۔ اس کا منشور اسے برقرار رکھنے اور اس کی خلاف ورزی کرنے والوں کے محاسبے کے لیے رکن ممالک کے عزم جتنا ہی مضبوط ہے۔

ہار نہ ماننے کا عزم

جنرل اسمبلی کی صدر نے تسلیم کیا کہ دنیا کو بہت سی تکالیف کا سامنا ہے اور اسے بہت سی ناکامیاں بھی ہوئی ہیں لیکن یہ سوچنے کی ضرورت ہے کہ اقوام متحدہ نہ ہوتا تو حالات کتنے بدتر ہوتے۔

انہوں نے اقوام متحدہ کے اداروں جیسا کہ عالمی ادارہ اطفال (یونیسف)، عالمی پروگرام برائے خوراک(ڈبلیو ایف پی) اور عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کے ضروری امدادی کام کا تذکرہ بھی کیا اور کہا کہ اگر درست کام کرنا چھوڑ دیا جائے تو برائی غالب آ جائے گی۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کا 80واں اجلاس اس عزم کا موقع ہے کہ 'ہم ہار نہیں مانیں گے اور بہتر انداز میں آگے بڑھیں گے جیسا کہ عالمی رہنماؤں نے آٹھ دہائیاں قبل کیا تھا۔

'

دنیا دوراہے پر

اینالینا بیئربوک نے کہا کہ اقوام متحدہ دو عالمی جنگوں اور ہولوکاسٹ کے ہولناک واقعات کے بعد اور اس وقت وجود میں آیا جب دنیا کی تقریباً ایک تہائی آبادی یعنی 75 کروڑ لوگ نوآبادیاتی نظام کے تحت زندگی گزار رہے تھے۔

اقوام متحدہ کے منشور پر دستخط کیے جانے سے لاکھوں لوگوں کو امید حاصل ہوئی۔ ان عشروں کے دوران یہ ادارہ ایک ایسا قطب نما رہا ہے جو امن، انسانیت اور انصاف کی سمت اشارہ کرتا ہے۔

تاہم، انہوں نے کہا کہ، اس ادارے کی کہانی آسان فتوحات کی کہانی نہیں ہے۔ یہ گرنے اور اٹھنے کی کہانی اور ایک دوسرے کو سنبھالنے اور مزید بہتری کے لیے کوشش کرنے کی کہانی ہے۔

زندگی کا بیمہ

اینالینا بیئربوک کا کہنا تھا کہ بین الاقوامی برادری ایک بار پھر نازک موڑ پر کھڑی ہے۔ ایسے حالات میں ہر رکن ملک کو اپنے پیشروؤں جیسی قیادت کا مظاہرہ کرنا ہو گا۔

انہوں نے عالمی رہنماؤں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ جب عمل کی ضرورت ہو تو عمل کریں، اقوام متحدہ کے منشور کے اصولوں پر قائم رہیں اور بہتر طور پر ایک ساتھ کھڑے ہوں۔

دنیا بھر کے لوگوں کو دکھانا ہو گا کہ اقوام متحدہ موجود ہے۔ آج بھی، کل بھی اور آئندہ آٹھ دہائیوں تک بھی، کیونکہ یہ ہر ملک کے لیے زندگی کا بیمہ ہے۔