اسرائیل غزہ پر کنٹرول اور فلسطینی علاقوں میں یہودی اکثریت کا خواہاں، کمیشن

یو این بدھ 24 ستمبر 2025 03:15

اسرائیل غزہ پر کنٹرول اور فلسطینی علاقوں میں یہودی اکثریت کا خواہاں، ..

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ UN اردو۔ 24 ستمبر 2025ء) اقوام متحدہ کے آزاد بین الاقوامی تحقیقاتی کمیشن نے کہا ہے کہ اسرائیلی حکومت نے غزہ کی پٹی پر مستقل کنٹرول قائم کرنے کی واضح اور مسلسل نیت ظاہر کی ہے جبکہ مقبوضہ مغربی کنارے میں یہودی آبادی کی اکثریت کو یقینی بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔

مقبوضہ فلسطینی علاقوں بشمول مشرقی یروشلم اور اسرائیل کے حوالے سے قائم کردہ کمیشن نے آج اپنی رپورٹ جاری کی ہے جس میں فلسطینیوں کی زمین پر قبضے، آبادی کی منتقلی اور غیر قانونی بستیوں کی تعمیر و توسیع کی تاریخی وجوہات اور پس منظر کو واضح کیا گیا ہے۔

Tweet URL

یہ رپورٹ 28 اکتوبر کو جنرل اسمبلی کے 80ویں اجلاس میں پیش کی جائے گی۔

(جاری ہے)

اس میں نسل کشی کے جرم کی روک تھام اور سزا سے متعلق کنونشن کے تناظر میں غزہ میں اسرائیل کے طرز عمل کا جائزہ بھی شامل ہے جو 16 ستمبر کو انسانی حقوق کونسل کے 60ویں اجلاس کے موقع پر شائع کیا گیا تھا۔

کمیشن نے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ غزہ میں نسل کشی کے چار اقدامات کیے گئے ہیں جو اسرائیلی حکام اور سیکیورٹی فورسز نے فلسطینیوں کو تباہ کرنے کے مخصوص ارادے کے ساتھ انجام دیے۔

اسرائیل ایک ریاست کے طور پر نسل کشی کے ارتکاب، اسے روکنے میں ناکامی اور اس کے مرتکبین کو سزا نہ دینے کا ذمہ دار ہے۔

رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ اسرائیلی صدر، وزیر اعظم، اور سابق وزیر دفاع نے نسل کشی پر اکسانے میں کردار ادا کیا۔

فلسطینیوں کی نسل کشی

رپورٹ کے مطابق، اسرائیلی حکام نے غزہ کی پٹی میں راہداریوں اور بفر زون کے علاقوں میں شہری تنصیبات کو بڑے پیمانے پر اور منظم انداز میں تباہ کیا اور اپنے زیرقبضہ علاقوں کو مسلسل وسعت دی۔

جولائی 2025 تک غزہ کے 75 فیصد علاقے پر اسرائیل کا قبضہ تھا۔

کمیشن نے کہا کہ اسرائیلی حکام نے شہری املاک کی تباہی اور آبادی کی جبری منتقلی کے ذریعے جان بوجھ کر غزہ کے فلسطینیوں کو اُن وسائل سے محروم کیا جو ان کی بقا کے لیے ضروری تھے۔ لہٰذا، ان اقدامات کے ذریعے ایسے سخت حالات پیدا کیے گئے جو فلسطینیوں کی مکمل یا جزوی تباہی کے ارادے سے مسلط کیے گئے تھے اور یہ نسل کشی کے مترادف ہیں۔

کمیٹی کی چیئرپرسن نیوی پیلائے نے کہا ہے کہ اسرائیل کو فلسطینی زمین پر قبضے اور اسے استعمال میں لانے کا سلسلہ ختم کرنا ہوگا بفر زون اور راہداریوں کی تعمیر و توسیع روکنا ہو گی۔ اسے تمام ضبط شدہ زمینیں بھی ان کے فلسطینی مالکان کو واپس کرنا ہوں گی۔

مغربی کنارے میں اسرائیلی توسیع

کمیشن نے کہا ہے کہ مقبوضہ مغربی کنارے اور مشرقی یروشلم میں اکتوبر 2023 سے نافذ کی گئی اسرائیلی پالیسیوں اور اقدامات سے فلسطینیوں کو جبری نقل مکانی، اسرائیلی بستیوں کو وسعت دینے پورے مغربی کنارے کو اسرائیل میں ضم کرنے، فلسطینیوں کے حق خود ارادیت اور ریاست کے قیام کے کسی بھی امکان کو روکنے اور غیر معینہ مدت تک قبضہ برقرار رکھنے کے واضح ارادے کا اظہار ہوتا ہے

جنین، طولکرم اور نور شمس کے پناہ گزین کیمپوں میں عمارتوں اور بنیادی ڈھانچے کی تباہی اور فلسطینی شہریوں کی بے دخلی کے ذریعے جغرافیائی منظرنامے کو نمایاں طور پر تبدیل کر دیا گیا ہے۔

نیوی پیلائے نے اسرائیلی وزیر خزانہ سموترچ کے اس حالیہ منصوبے پر گہری تشویش کا اظہار کیا ہے جس کے تحت انہوں نے مقبوضہ مغربی کنارے کے 82 فیصد حصے کو اسرائیل میں ضم کرنے کا اعلان کیا تھا۔

چیئرپرسن نے ای ون علاقے میں اسرائیلی بستیوں کی توسیع کو بڑھانے کے منصوبے کی منظوری پر بھی تنقید کی۔ انہوں نے کہا کہ وزیراعظم نیتن یاہو نے خود کہا تھا کہ یہ اقدام اس بات کو یقینی بنائے گا کہ فلسطینی ریاست کبھی وجود میں نہ آئے۔

بین الاقوامی جرائم کے ذمہ دار حکام

رپورٹ میں اسرائیل کے چھ اعلیٰ سطحی حکام کے بارے میں کہا گیا ہے کہ ان پر فلسطینیوں کے خلاف بین الاقوامی جرائم کی سب سے بڑی ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔

ان میں سابق وزیر دفاع یوآو گیلنٹ اور موجودہ وزیر دفاع اسرائیل کاٹز، وزیر خزانہ بیتسلئیل سموترچ اور آبادکاری و قومی منصوبہ جات کی وزیر اوریت ستروک، وزیر برائے قومی سلامتی اتمار بن گویر اور وزیر اعظم بنیامین نیتن یاہو شامل ہیں۔

نیتن یاہو اور یوآو گیلنٹ کو نسل کشی پر اکسانے کے جرم کا ذمہ دار بھی قرار دیا گیا ہے۔

کمیشن کی سفارشات

کمیشن نے اسرائیلی حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ غزہ کی پٹی میں نسل کشی کے اقدامات کو فوری طور پر روکے، بین الاقوامی عدالت انصاف کے عبوری احکامات اور مشاورتی رائے پر مکمل عمل درآمد کرے۔

علاوہ ازیں، فلسطینی علاقوں پر غیر قانونی قبضے کا خاتمہ کیاجائے، مغربی کنارے اور دیگر مقبوضہ علاقوں سے تمام اسرائیلی بستیوں اور آبادکاروں کو ہٹایا جائے، زمین، رہائش، اور منصوبہ بندی سے متعلق تمام امتیازی پالیسیوں کا خاتمہ یقینی بنایا جائے۔