ازبکستان کے وفد کا ایوانِ کارکنان تحریک پاکستان کا دورہ، پاکستان وازبکستان مشترکہ ثقافتی تاریخ ''کانفرنس کا انعقاد

بدھ 24 ستمبر 2025 22:10

لاہور (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 24 ستمبر2025ء) ازبکستان سے آئے ایک وفد نے ممبر آف سینیٹ ازبکستان اورسابق مشیر برائے صدرِ ازبکستان سینیٹر عظمت زیو کی قیادت میں ایوان کارکنان تحریک پاکستان لاہور کا دورہ کیا۔ اس موقع پر ادارۂ نظریۂ پاکستان نے ازبک سفارتخانے اور مسلم انسٹی ٹیوٹ کے اشتراک سے ''پاکستان۔ازبکستان مشترکہ ثقافتی تاریخ '' کے عنوان سے ایک کانفرنس کا انعقاد کیا۔

کانفرنس کی صدارت کارکن تحریک پاکستان و سینئر وائس چیئرمین ادارۂ نظریۂ پاکستان میاں فاروق الطاف نے کی۔ مقررین میں چیئرمین مسلم انسٹیٹیوٹ و ممبر بورڈ آف گورنرز ادارۂ نظریۂ پاکستان صاحبزادہ سلطان احمد علی' ڈین پاکستان کالج آف لاء و ممبر بورڈ آف گورنرز ادارۂ نظریۂ پاکستان پروفیسر ہمایوں احسان، ازبکستان سفارتخانہ کے ڈپٹی ہیڈ آف مشن روشان علیموف، ریسرچ فیلو آف انسٹیٹیوٹ آف ہسٹری اکیڈمی آف سائنسز ازبکستان بوتر یلداشیو، چیف سیفٹی آفیسر پاکستان ریلوے محمد حنیف گل، سائنٹیفک سیکرٹری انسٹی ٹیوٹ آف ہسٹری اکیڈمی آف سائنسز ڈاکٹر عادل زری یوف، سکالر اینڈ سوشل سروسز ایکٹوسٹ خلیفہ ذکی الدین شامل تھے۔

(جاری ہے)

اس موقع پر مقررین کا کہنا تھا پاکستان اور ازبکستان کے تعلقات محض سفارتی نوعیت کے نہیں بلکہ ان کی بنیاد مشترکہ تاریخ، گہرے ثقافتی روابط اور برادرانہ رشتوں پر ہےجو باہمی اعتماد اور احترام کے ساتھ مزید مضبوط ہو رہے ہیں۔ حضرت امام بخاری اور امیر تیمور کی سرزمین سے تعلق رکھنے والی نامور شخصیات کی یہاں موجودگی خوش آئند ہے۔ دونوں ممالک کے تعلقات کی بنیاد صدیوں پر محیط تہذیبی تسلسل، علمی تبادلے، اور صوفیانہ افکار کی مشترکہ روایت پر قائم ہے۔

پاکستان اور ازبکستان کے عوام کا رشتہ یک جان دو قالب کی مانند ہے۔ ازبکستان کے شہروں بخارا و سمرقند کا حوالہ اس خطہ کی تاریخ و ادب میں ہمیشہ دیا جاتا رہے گا، شہرِ لاہور ازبکستان کے عوام کیلئے بڑی کشش رکھتا ہے۔ مقررین نے کہا کہ پاکستان کا وجود اسی دن قائم ہو گیا تھا جب قطب الدین ایبک نے برصغیر میں مسلم ریاست کی بنیاد رکھی تھی۔پاکستان تیموری ، مغل اور لودھی سلطنت کا تسلسل ہے جس کی علمی اور ثقافتی بنیادیںافغان اور ترک ثقافت سے ملتی ہیں۔

برصغیر کی ثقافتی روایات کی جڑیں وسط ایشیائی ممالک سے پیوست ہیں جسے بھارتی ریاست اور ہندوتوا کا شدت پسند نظریہ صفحۂ ہستی سے مٹانا چاہتا ہے۔ بھارتی ریاست اور ہندوتوا کی پالیسی مسلم بالخصوص مغل دور میں رکھے گئے نام اور بسائے گئے شہروں کی تاریخ مسخ کر رہی ہے اور مسلم ثقافت کو ختم کرنے کے در پر ہے، جس کی واضح مثال بھارت میں تیموری مغل دور کی عمارات و یادگاروں کے نام تبدیل کرنا اور نصاب کی کتابوں سے تیموری مغل تاریخ کو حذف کرنا ہے اس کا مقصد مسلم ثقافت جس کی جڑیں سنٹرل ایشیا سے ملتی ہیں کو ختم کرنا ہے۔

اگر آج ہم نے اقدامات نہ کئے تو بابری مسجد کی طرح دیگر اہم مذہبی اور تاریخی مقامات ہندوتوا شدت پسندانہ ذہنیت کا شکار ہو سکتے ہیں۔ سنٹرل ایشیا کو اپنے اس تاریخی ورثہ اور ثقافت کو بچانے کے لئے مشترکہ کاوش کرنی چاہئے۔سلسلہ نقشبندیہ کے بانی شیخ بہائوالدین کا تعلق بھی ازبکستان سے تھا۔ مقررین کا کہنا تھا کہ ہمیں خارجہ پالیسی سے ہٹ کر اندرونی و باہمی پالیسی اپنانے کی ضرورت ہے۔

مشترکہ ثقافتی روایات کا عکس ہمیں پاکستان کے تعلیمی اداروں، ریاستی سطح اور افواج کی سطح پہ بھی نظر آتا ہے جہاں پاکستان اپنے میزائلوں کا نام بابر اور غوری اور غزنوی سے موسوم کرتا ہے۔پاکستان ملٹری اکیڈمی کاکول میں مختلف کمپنیز کو بابر، غزنوی اور اورنگیزیب جیسے نام اسی سلسلہ کو فروغ دیتے ہوئے رکھے گئے ہیں۔پاکستان اپنے مشاق طیاروں کی ٹریننگ ازبکستان کو دے چکا ہے۔

مقررین کا کہنا تھا پاکستان اور ازبکستان تاریخی طور پر ایک دوسرے کے فطری شراکت دار ہیں یہی شراکت داری سٹریٹجک اور دفاعی محاذ پر بھی نظر آتی ہے۔دونوں ممالک کے مابین تجارت اور سرمایہ کاری کے شعبوں میں مزید کام کی ضرورت ہے۔ پاکستان اور ازبکستان کے تاریخی تعلقات کے ذریعے عوامی روابط، تعلیمی اشتراک اور سیاحت کو مزید فروغ دینا چاہئے۔ پاکستان اور ازبکستان کی شراکت داری نہ صرف دونوں ممالک کے عوام کیلئے خوشحالی اور ترقی کا باعث بنے گی بلکہ پورے خطے میں امن ، استحکام اور تعاون کی نئی راہیں بھی کھولے گی۔کانفرنس میں وقفہ سوال و جواب بھی ہوا اور مقررین کو کانفرنس کی یادگاری شیلڈز بھی دی گئیں۔