اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 27 ستمبر 2025ء) وفاقی چانسلر فریڈرش میرس کی قدامت پسند یونین جماعت سی ڈی یو کی ہم خیال باویرین کنزرویٹو پارٹی سی ایس یو سے تعلق رکھنےوالے جرمن وزیر زراعت آلوآ رائنر نے ہفتہ 27 ستمبر کو برلن میں نیوز ایجنسی ڈی پی اے کو بتایا کہ کہ جرمنی یورپی یونین کا سب سے زیادہ آبادی والا ملک ہے، لیکن جرمن معاشرے میں سالانہ جتنی اشیائے خوراک ضائع کر دی جاتی ہیں، اس کے خلاف مؤثر اقدامات کی اشد ضرورت ہے۔
انہوں نے کہا، ''جرمنی میں ہر سال تقریباﹰ 11 ملین ٹن خوراک کوڑے کے کنٹینروں میں پھینک دی جاتی ہے اور وسائل کے اس ضیاع کو کم سے کم کر دینے کی سماجی جنگ صرف مل جل کر ہی جیتی جا سکتی ہے۔‘‘
وفاقی جرمن وزارت زراعت کے اعداد و شمار کے مطابق جرمنی میں ہر سال جتنی بڑی مقدار میں اشیائے خوراک کوڑے میں پھینک دی جاتی ہیں، اس میں سے 60 فیصد کا سبب عام گھرانے بنتے ہیں۔
(جاری ہے)
پیر 29 ستمبر سے شروع ہونے والی خصوصی مہم
جرمنی میں روزمرہ کی زندگی میں اشیائے خوراک کے ضیاع کو کم سے کم کرنے کے لیے پیر 29 ستمبر سے ہفتے بھر کے لیے ایک ایسی ملک گیر مہم بھی شروع کی جا رہی ہے، جس کا عنوان ہے: ''اتنی اچھی (خوراک) کہ جسے کنٹینر میں نہیں جانا چاہیے۔‘‘
اس مہم کے دوران ملک بھر میں عام شہریوں میں مختلف طریقوں سے اس شعور کو ترویج دینے کی کوشش کی جائے گی کہ جب قابل استعمال اشیائے خوراک کوڑے کے ڈبوں میں پھینک دی جاتی ہیں، تو نتیجہ قیمتی وسائل کا ایسا ضیاع ہوتا ہے، جو باعث افسوس بھی ہے اور قابل مذمت بھی۔
جرمنی میں صارفین کے حقوق کے تحفظ کے لیے سرگرم تنظیموں کے ملکی مرکز کے مطابق اس مسئلے کا بہترین حل تو یہ ہے کہ ایسی صورت حال پیدا ہی نہ ہونے دی جائے، جو کھانے پینے کی اشیاء کے کوڑے میں پھینکے جانے کا باعث بنے۔
خوراک ضائع کیسے ہوتی ہے؟
جرمن صارفین کے حقوق کے تحفظ کی ملکی تنظیم کے مطابق اشیائے خوراک کے ضیاع کے بڑے اسباب میں عام صارفین کی سوچ، اشیاء کی ضرورت سے زیادہ تجارتی پیداوار اور خوراک کے پیکٹوں کے سائز بھی شامل ہیں۔
اس تنظیم کے صدر دفتر کی طرف سے اس حوالے سے جرمن نیوز ایجنسی ڈی پی اے کو بتایا گیا، ''وہ آخری تاریخ، جو اشیائے خوراک کے پیکٹوں پر لکھی ہوتی ہے اور جس تاریخ تک ایسی مصنوعات کو استعمال کیا جا سکتا ہو، اس تاریخ سے پانچ دن پہلے ہی عام مارکیٹوں کا عملہ انہیں شیلفوں سے ہٹانا شروع کر دیتا ہے اور ایسی تمام مصنوعات کوڑے میں پھینک دی جاتی ہیں۔
‘‘ساتھ ہی یہ بات بھی المناک ہے کہ جرمنی جیسے ملک میں بھی کئی ایسے ضرورت مند انسان ہوتے ہیں، جو اپنے لیے معمول کی گروسری کی شاپنگ کے متحمل نہیں ہو سکتے، اور اپنی ضرورت کی اشیائے خوراک کوڑے کے کنٹینروں سے نکال لیتے ہیں۔
اس کے لیے متعلقہ افراد اپنی گفتگو میں containern کی اصطلاح استعمال کرتے ہیں، جس کا جرمن زبان میں لفظی مطلب ہے: ’’کنٹینر سے نکالنا۔
‘‘کوڑے کے کنٹینروں سے خوراک نکالنا خلاف قانون
جرمنی میں صارفین کے حقوق کے تحفظ کی ملکی تنظیم کے مطابق، ''اشیائے خوراک کی خریداری کی کم سکت یا 'غذائی غربت‘ اب جرمن معاشرے کی ایک تلخ حقیقت بن چکی ہے۔‘‘
جہاں تک کوڑے کے کنٹینروں سے اشیائے خوراک نکالنے کا تعلق ہے، تو یہ عمل جرمنی میں قانوناﹰ ابھی تک ممنوع ہے۔
کنزیومر رائٹس تنظیموں کا کہنا ہے کہ حکومت نے ابھی تک ایسی قانون سازی کی کوئی نئی کوشش نہیں کی، جس کے بعد containern کا عمل غیر قانونی نہ رہے۔دو سال پہلے اس دور کی وفاقی جرمن حکومت نے کنٹینروں سے اشیائے خوراک نکال کر استعمال کرنے کے عمل کو زیادہ تر قانونی حیثیت دینے کی کوشش کی تھی، تاہم تب اس سلسلے میں کوئی متفقہ ضابطہ طے نہیں پا سکا تھا۔
اس بارے میں وفاقی سطح پر اتفاق رائے اس لیے ضروری ہے کہ انتظامی سطح پر کنٹینروں سے خوراک نکالنے والوں کو سزا دینا یا ان سے جرمانہ وصول کرنا صوبائی حکومتوں کی عمل داری میں آتا ہے اور اگر وفاقی سطح پر قانون سازی نہ کی گئی، تو صوبوں میں اس قانون پر عمل درآمد بہت پیچیدہ اور مشکل ہو سکتا ہے۔
گزشتہ حکومتی کوشش کے دوران اس موضوع پر ملک کے تمام 16 وفاقی صوبوں میں کوئی اتفاق نہ ہو سکا تھا۔ برلن میں وفاقی وزارت زراعت کے مطابق وہ اس موضوع پر فی الحال اپنی طرف سے پارلیمانی قانون سازی کی کوئی نئی کوشش نہیں کرنا چاہتی۔
ادارت: شکور رحیم