ٹیرف اور قرضے دنیا کے بیشتر ممالک کی ترقی میں رکاوٹ، ریبیکا گرینسپین

یو این منگل 21 اکتوبر 2025 10:00

ٹیرف اور قرضے دنیا کے بیشتر ممالک کی ترقی میں رکاوٹ، ریبیکا گرینسپین

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ UN اردو۔ 21 اکتوبر 2025ء) دنیا میں 72 فیصد تجارت عالمی تجارتی تنظیم (ڈبلیو ٹی او) کے قواعد کے تحت ہوتی ہے۔ تباہ کن تجارتی جنگوں سے بچنے کے لیے اصولوں پر مبنی اس نظام کو برقرار رکھنا بہت ضروری ہے۔

یہ بات اقوام متحدہ کی تجارتی و ترقیاتی کانفرنس (انکٹاڈ) کی سیکرٹری جنرل ریبیکا گرینسپین نے جنیوا میں ادارے کے چار سالہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ فی الوقت دنیا ایسے مسائل سے بچنے میں کامیاب رہی ہے جس نے 1930 کی دہائی میں تجارتی محصولات میں اضافے سے جنم لیا جس کے نتیجے میں عالمی معیشت مفلوج ہو کر رہ گئی تھی۔ تاہم، حالیہ عرصہ میں اس حوالے سے بدترین خدشات نے جنم لیا ہے۔

Tweet URL

انہوں نے کہا کہ اب تک دنیا کو تجارتی تحفظ مثبت سوچ کے ساتھ کی جانے والی بات چیت کے نتیجے میں ملا ہے جو اس وقت بھی جاری رہی جب بظاہر یہ بے معنی معلوم ہوتی تھی۔

(جاری ہے)

اس سوچ کی ضرورت آج پہلے سے کہیں بڑھ گئی ہے جب بڑھتے ہوئے تجارتی محصولات، مقروض ممالک پر قرضوں کی بھاری ادائیگیوں کی ذمہ داری اور بڑھتی ہوئی باہمی بےاعتمادی ترقی کی رفتار کو روک رہے ہیں۔

مشکل معاشی فیصلے

ریبیکا گرینسپین نے کہا کہ بہت سے ممالک کو قرض اور ترقی کا بحران درپیش ہے۔ انہیں قرض کی ادائیگی کے لیے اپنی ترقی کے عمل کو روکنے جیسے نہایت مشکل فیصلے کرنا پڑ رہے ہیں۔

امریکہ سمیت کئی بڑی معیشتوں کی جانب سے عائد کردہ محصولات کی شرح رواں سال اوسطاً 2.8 فیصد سے بڑھ کر 20 فیصد سے زیادہ ہو گئی ہے۔

محصولات سرمایہ کاری کو روکنے، ترقی کی رفتار کو سست کرتے اور تجارت کے ذریعے ترقی کو انتہائی مشکل بنا دیتے ہیں۔

سرمایہ کاری میں کمی

ریبیکا گرینسپین نے خبردار کیا کہ عالمی سطح پر سرمایہ کاری میں مسلسل دوسرے سال بھی کمی واقع ہو رہی ہے جس کے نتیجے میں آئندہ ترقی کمزور پڑ جائے گی۔

سرمایہ کاری کا موجودہ نظام زیادہ تر امیر ممالک کے منصوبوں کو ترجیح دیتا ہے جبکہ ترقی پذیر ممالک کے لیے اخراجات بہت زیادہ ہیں۔ مثال کے طور پر زیمبیا میں ایک ڈالر کمانے کے لیے کی جانے والی سرمایہ کاری زیورچ کے مقابلے میں تین گنا مہنگی پڑتی ہے۔

مال برداری (فریٹ) کے اخراجات انتہائی غیر مستحکم ہو چکے ہیں اور بندرگاہوں سے محروم یا جزائر پر مشتمل چھوٹے ترقی پذیر ممالک کو نقل و حمل کے اخراجات کی مد میں عالمی اوسط سے تین گنا زیادہ ادائیگی کرنا پڑتی ہے۔

اگرچہ مصنوعی ذہانت عالمی معیشت میں کھربوں ڈالر کا اضافہ کر سکتی ہے مگر ترقی پذیر ممالک میں ایک تہائی نے ہی اس سے فائدہ اٹھانے کے لیے کوئی حکمت عملی تیار کی ہے۔ 2.6 ارب لوگ اب بھی انٹرنیٹ سے محروم ہیں جن میں اکثریت خواتین کی ہے اور زیادہ تر کا تعلق ترقی پذیر ممالک سے ہے۔

قرض کا بحران

اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی صدر اینالینا بیئربوک نے گرینسپین کے خدشات سے اتفاق کرتے ہوئے کہا کہ گزشتہ سال ترقی پذیر ممالک کا قرض 31 ٹریلین ڈالر تک پہنچ گیا تھا۔

قرض کے اس بوجھ کی وجہ سے حکومتیں اپنے لوگوں کے لیے تعلیم اور صحت جیسے شعبوں میں سرمایہ کاری کرنے کے بجائے بھاری رقوم قرضوں کی ادائیگی پر صرف کر رہی ہیں۔

جنرل اسمبلی کی صدر نے کہا کہ بین الاقوامی نظام پر اعتماد تیزی سے کم ہوتا جا رہا ہے۔ اگرچہ عالمی معیشت کی مجموعی مالیت 100 کھرب ڈالر سالانہ سے زیادہ ہے لیکن دنیا کی نصف آبادی نے ایک نسل سے اپنی آمدنی میں کوئی خاص اضافہ نہیں دیکھا۔