امن و سلامتی کے معاملات میں خواتین کی نمائندگی کم، یو این رپورٹ

یو این منگل 21 اکتوبر 2025 10:00

امن و سلامتی کے معاملات میں خواتین کی نمائندگی کم، یو این رپورٹ

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ UN اردو۔ 21 اکتوبر 2025ء) اقوام متحدہ نے بتایا ہے کہ گزشتہ سال 67 کروڑ 60 لاکھ خواتین ایسے علاقوں میں رہ رہی تھیں جو مہلک تنازعات کا شکار یا ان سے پچاس کلومیٹر کے فاصلے میں واقع ہیں اور یہ 1990 کی دہائی کے بعد ایسی سب سے بڑی تعداد ہے۔

'خواتین، امن اور سلامتی' کے موضوع پر اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کی تازہ ترین رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ رواں برس اس ایجنڈے اور سلامتی کونسل کی قرارداد 1325 کی منظوری کو 25 سال مکمل ہو رہے ہیں۔

یہ قرارداد صدی کے آغاز میں ایک تاریخی سنگ میل ثابت ہوئی جس کی بدولت تنازعات کی روک تھام اور امن عمل میں خواتین کی شمولیت کی اہمیت کو تسلیم کیا گیا۔

Tweet URL

قرارداد منظور ہونے کے بعد اس معاملے پر عالمی برادری میں اتفاق رائے بڑھ گیا ہے۔

(جاری ہے)

کولمبیا، لائبیریا اور فلپائن جیسے ممالک کی عملی مثالوں نے ثابت کیا ہے کہ خواتین کی شمولیت امن معاہدوں کو زیادہ ممکن اور دیرپا بناتی ہے۔

اس رپورٹ میں قیام امن کے لیے خواتین کے کردار، ان پر تنازعات کے اثرات اور اس ایجنڈے کے لیے سیکرٹری جنرل کے مقاصد پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ خواتین کے لیے اقوام متحدہ کے ادارے 'یو این ویمن' کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر سیما بحوث نے کہا ہے کہ مسلح تنازعات میں خواتین اور لڑکیاں ریکارڈ تعداد میں ہلاک ہو رہی ہیں، انہیں امن مذاکرات سے خارج رکھا جا رہا ہے اور پھیلتی جنگوں میں ان کے لیے کوئی تحفظ نہیں ہے۔

خواتین کو اب مزید وعدوں کی ضرورت نہیں بلکہ انہیں طاقت، تحفظ اور مساوی شرکت درکار ہے۔

خواتین کی تنظیموں کو خطرہ

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 'خواتین، امن اور سلامتی' کے ایجنڈے کی تکمیل کے لیے خاطر خواہ مقدار میں مالی وسائل کی دستیابی ضروری ہے۔ گزشتہ سال اسی رپورٹ کے اجرا کے بعد خواتین کی قیادت میں کام کرنے والی تنظیموں کے لیے مالی وسائل کی ضرورت مزید بڑھ گئی ہے کیونکہ بڑھتے ہوئے تنازعات اور بحرانوں نے ان کا وجود خطرے میں ڈال دیا ہے۔

خواتین تنازعات کے حل میں اہم کردار ادا کر سکتی ہیں۔ مثال کے طور پر، یمن کی طویل خانہ جنگی کے خاتمے کے لیے جاری مذاکرات میں خواتین رہنماؤں نے قدرتی وسائل تک رسائی کے حوالے سے کامیاب مذاکرات کیے۔ تاہم، 2020 سے 2024 کے درمیان جمع کیے گئے اعداد و شمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ مذاکرات کار، ثالث یا معاہدوں پر دستخط کرنے کے حوالے سے خواتین کی نمائندگی اقوام متحدہ کے مقرر کردہ ہدف سے بہت کم ہے۔

رپورٹ کے مطابق، گزشتہ سال دنیا بھر میں مذاکرات کاروں میں خواتین کا اوسط حصہ صرف 7 فیصد تھا، اور تقریباً 90 فیصد مذاکراتی عمل ایسے تھے جن میں کوئی خاتون شامل نہیں تھی۔

دوسری جانب، ثالثی کے عمل میں خواتین کی نمائندگی قدرے بہتر (اوسطاً 14 فیصد) رہی، تاہم، اس کے باوجود ثالثی کے دو تہائی عمل میں خواتین شامل نہیں تھیں۔ سیکرٹری جنرل نے خبردار کیا ہے کہ اگرچہ گزشتہ 25 برس میں کچھ پیش رفت ضرور ہوئی ہے، لیکن یہ کامیابیاں نازک ہیں اور ان کے ضائع ہونے کا خدشہ ہے۔

ادھورے وعدے

یہ رپورٹ پیش کرتے ہوئے 'یو این ویمن' کی نائب ایگزیکٹو ڈائریکٹر نیارادزائی گمبونزوانڈا نے بتایا کہ گزشتہ دو سال کے مقابلے میں اب مسلح تنازعات میں خواتین اور بچوں کے ہلاک ہونے کی شرح چار گنا بڑھ گئی ہے جبکہ جنسی تشدد کے واقعات میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ صف اول میں کام کرنے والی خواتین کی کئی تنظیمیں اب مالی وسائل کی کمی کے باعث اپنے کام کو محدود کر رہی ہیں یا بند کرنے پر مجبور ہیں۔

اس حوالے سے سامنے آنے والے اعداد و شمار ادھورے وعدوں کی داستان سناتے ہیں۔

ادارے میں پالیسی ڈویژن کی ڈائریکٹر سارہ ہینڈرکس نے خبردار کیا ہے کہ موجودہ رجحان برقرار رہا تو گزشتہ دو دہائیوں میں خواتین کے حقوق پر حاصل ہونے والی پیش رفت غارت ہونے کا خطرہ ہے۔

انہوں نے رپورٹ کی سفارشات دہراتے ہوئے کہا کہ خواتین کی شرکت کے لیے لازمی اہداف اور کوٹے مقرر کیے جائیں اور تنازعات کے دوران صنفی بنیاد پر جرائم اور تشدد پر جواب طلبی کا نظام قائم کیا جائے۔ جب خواتین قیادت کرتی ہیں اور ان کی تنظیموں کو وسائل فراہم کیے جاتے ہیں تو امن کے امکانات بڑھتے ہیں، بحالی کا عمل تیز ہوتا ہے اور معاشرے زیادہ مضبوط ہو جاتے ہیں۔