یمن: ’پانچ ماہ میں 400 بچے ہلاک، ایک کروڑ امداد کے منتظر، پانچ لاکھ کے قریب حاملہ خواتین کی پہنچ طبی سہولیات تک نھیں، عام شہریوں کی زندگیاں بچانے کے لیے اقدامات نھیں اٹھائے جا رہے،یونیسیف

جمعرات 20 اگست 2015 09:17

نیو یا رک(اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔20 اگست۔2015ء)اقوامِ متحدہ کی بچوں کی تنظیم یونیسیف کی نئی رپورٹ کے مطابق یمن میں جاری مسلح تصادم میں پانچ ماہ کے دوران 400 بچوں کی ہلاکتیں ہوچکی ہیں۔یونیسیف کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ مختلف مسلح گروہوں کی جانب سے تقریباً اتنی ہی تعداد میں بچوں کو بھرتی بھی کیا گیا ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ لڑائی ’کا کوئی حل نہیں نظر آرہا ہے‘۔

یونیسیف کی رپورٹ کے مطابق ایک کروڑ کے قریب بچے یا تقریباً آدھی آبادی کو فوری طور پر انسانی بنیادوں پر امداد کی ضرورت ہے۔رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ یمن کے سب سے زیادہ متاثرہ علاقوں میں پانچ لاکھ کے قریب حاملہ خواتین کی پہنچ طبی سہولیات تک نھیں ہے۔ جس کے باعث دورانِ زچگی اور حمل میں پیچیدگیوں کے دوران انھیں شدیدمشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

(جاری ہے)

یاد رہے یمن میں سعودی عرب اور اس کے اتحادی، شیعہ حوثی جنگجووٴں کے ساتھ برسرپیکار ہیں۔ تنازعے کے باعث لاکھوں افراد پھنس کے رہ گئے ہیں جبکہ امدادی تنظیموں نے خبردار کیا ہے کہ لوگ بھوک کا شکار ہیں۔یونیسیف کے مطابق ’بچوں کو درکار بنیادی ضرورتیں تہس نہس ہوچکی ہیں‘۔اِس رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ایک ہفتے پہلے تک 398 بچے ہلاک، 377 بچوں کو لڑائی کے لیے بھرتی کرلیا گیا ہے جبکہ 13 لاکھ بچوں کو اپنے گھر بار چھوڑنے پڑے ہیں۔

رپورٹ میں خدشہ ظاہر کیا گیا ہے کہ ہلاکتوں کی تعداد زیادہ بھی ہوسکتی ہے۔ اقوامِ متحدہ کی انسانی حقوق کی تنظیم نے منگل کو بتایا کہ جمعہ تک ہونے والی لڑائی میں کم ازکم ایک ہزار نو سو پچاس شہری اپنی جانوں سے ہاتھ دھو چکے ہیں۔انسانی حقوق کی تنظیموں کی جانب سے اس بات پر تشویش کا اظہار کیا گیا ہے کہ دونوں جانب سے جنگی قوانین کی خلاف ورزی کی جارہی ہے۔

اْن کا کہنا ہے کہ عام شہریوں کی زندگیاں بچانے کے لیے اقدامات نھیں اٹھائے جا رہے۔رواں ہفتے ایمنسٹی انٹرنیشنل نے اقوامِ متحدہ سے کہا ہے کہ مبینہ جنگی جرائم کی تفتیش کے لیے کمیشن تشکیل دیا جائے۔اقوامِ متحدہ اور دوسری امدادی تنظیموں کی جانب سے بار بار کہا جا رہا ہے کہ کھانے پینے کی اشیا، ایندھن، ادویات، اور دیگر ضروری سامان یمن پہنچانے دیا جائے۔

تاہم اتحادیوں کے جانب سے ہوائی اور سمندری حدود میں سفر پر سخت پابندیاں عائد ہیں۔ دوسری جانب جلاوطن یمنی حکومت کی جانب سے الزام لگایا جا رہا ہے کہ بھیجی جانے والی امداد حوثی باغی اغوا کر لیتے ہیں۔عرب دنیا میں یمن سب سے غریب ملک ہے جس کا 90 فیصد انحصار درآمدی اشیا پر ہے۔ اقوامِ متحدہ کی طرف سے مختلف ذرائع سے امداد بھیجنے کی کئی کوششیں ناکام ہوچکی ہیں۔

کچھ ماہ قبل اقوامِ متحدہ کی جانب سے اپیل کے بعد سعودی عرب نے 274 ملین ڈالر کی امداد دینے کا وعدہ کیا تھا۔ یونیسیف کے ترجمان نے منگل کو امریکی خبر رساں ایجنسی اے پی کو بتایا کہ اپیل کے بعد سے اْن کی تنظیم کو کوئی رقم موصول نہیں ہوئی ہے۔ سعودی عرب اور عالمی ادارے کے مابین امداد کے حوالے سے ہونے والی بات چیت کی وجہ سے رقم تعطلی کا شکار ہے۔

یونیسیف کے یمن میں نمائندے جولین ہارنیز کہتے ہیں ’یہ تنازع یمن کے بچوں کے لیے خاص طور پر المناک ہے۔۔۔ (وہ) بم حملوں یا پھر گولیوں کا شکار ہورہے ہیں۔ جو بچے بچ جاتے ہیں اْن کو بیماریوں اور غذائی قلت کا خطرہ ہوتا ہے۔‘یمن رپورٹ: چائلڈ ہْڈ انڈر تھریٹ‘ کے مطابق اس تنازعے میں مسلح گروہوں کی جانب سے بھرتی کیے جانے یا استعمال ہونے والے والے بچوں کی تعداد گذشتہ سال کے مقابلے میں اِس سال دْگنی سے زائد ہوگئی ہے۔

2014 میں 156 بچوں کو بھرتی کیا گیا تھا جبکہ رواں سال اب تک 377 بچوں کو بھرتی کیا جا چکا ہے۔یونیسیف کا کہنا ہے کہ یمن میں تمام فریق کی جانب سے اپنی افرادی قوت میں اضافے کیلیے نو عمر لڑکوں کو بھرتی کیا جارہا ہے۔ یہ نوجوان اپنے خاندان کی معاشی مدد کرنے کی غرض سے لڑائی میں شامل ہوتے ہیں۔دوسری جانب، انٹرنیشنل کمیٹی آف دی ریڈ کراس، نے کہا ہے کہ اْس کو یمن کے جنگ زدہ علاقوں میں بڑھتی ہوئی اْن لاشوں پر ’شدید تشویش‘ ہے جن کو پوچھنے والا کوئی نہیں ہے۔

متعلقہ عنوان :