Awam Ko Bijli Ka Jhatka
عوام کو بجلی کا جھٹکا
مہنگائی کی نئی لہر۔۔۔۔۔ مہنگائی اگرچہ ہر دور میں ہوتی رہی ہے مگر کچھ عرصہ سے جس تیز رفتاری سے اس میں اضافہ ہوا‘ اس نے غریب کی زندگی اجیرن کرکے رکھ دی ہے۔ عید کے بعد سے اب تک مہنگائی کا سلسلہ جاری ہے۔
ہفتہ 30 اگست 2014
وقت جتنی تیزی سے گزر رہا ہے‘ وطن عزیز میں مہنگائی بھی اسی تیزرفتاری سے بڑھتی چلی جا رہی ہے۔ اگرچہ انتخابات کے موقع پر غریب عوام سے تمام سیاسی جماعتیں دلفریب نعرے اور سنہرے خواب دکھاتی ہیں مگر وہی جماعتیں برسراقتدا ر آکر ان تمام وعدوں کو پس پشت ڈال دیتی ہیں۔ ایوب دور حکومت میں آٹا کی قیمت میں چند پیسے اضافہ ہوا تھاجس نے عوام کو احتجاج پر مجبور کر دیا تھا۔ بعدازاں بھٹو دور میں راشن کارڈ کے ذریعے ڈپووں سے آ ٹا اور چینی بازار کی نسبت کم قیمت پر ملنے لگی تھی مگر ضرور یات زندگی کی چیزیں عوام کی قوت خرید سے بڑ ھتی ہی رہی تھیں جبکہ ضیاء الحق دور میں بھی مہنگائی پر قابو نہ پایا جا سکا اور بینظیر بھٹو اور نوازشریف کی وزارت عظمیٰ کے ادوار میں عوام کو مختلف اشیاء پر سبسڈی کا سلسلہ بھی جاری رہا۔
(جاری ہے)
مہنگائی اگرچہ ہر دور میں ہوتی رہی ہے مگر کچھ عرصہ سے جس تیز رفتاری سے اس میں اضافہ ہوا‘ اس نے غریب کی زندگی اجیرن کرکے رکھ دی ہے۔ تمام تر حکومتی اقدامات کے باوجود مہنگائی روز افزوں بڑھتی ہی چلی جا رہی ہے۔ رمضان المبارک کے ماہ میں اگرچہ رمضان بازاروں میں مقررہ قیمتوں پر اشیاء کی فراہمی یقینی بنائی گئی مگر وہ محدود سطح پر تھی جبکہ سبزیوں‘ پھلوں اور دیگر اشیاء کی قیمتیں عوام کی پہنچ سے باہر تھیں۔ عید کے بعد سے اب تک مہنگائی کا سلسلہ جاری ہے۔ گوشت تو عام آدمی کی قوت خرید سے باہر ہے۔ اب تو دال اور سبزیاں فی کلو سو روپے سے زائد پر فروخت ہو رہی ہیں۔ اس سلسلے میں عام دکانداروں کا موٴقف ہے کہ منڈیوں سے جس نرخ پر اشیاء ملتی ہیں‘ ہم اس تناسب سے اس میں اپنا منافع شامل کرکے فروخت کرتے ہیں۔ دراصل اب ذرائع آمدورفت مہنگے ہونے سے بھی اشیاء کی قیمتوں میں اضافہ ہوتا ہے۔ اگر کوئی پھل سرگودھا سے یا سبزی اوکاڑہ کے گردونواح سے آئے گی تو اسے بڑے بڑے شہروں کی منڈیوں تک پہنچانے میں ٹرانسپورٹ کے اخراجات بھی دینے پڑتے ہیں اور ایک بزرگ شہری نے بتایا کہ اشیاء کی قیمت میں بڑھوتری کی ایک وجہ آبادی میں اضافہ ہے تو دوسری طرف عالمی مالیاتی اداروں کے کردار کو بھی فراموش نہیں کرنا چاہئے۔ ایک اور اہم وجہ یہ ہے کہ لاہور کی مثال لے لیں‘ ساٹھ ستر کی دہائی میں زیادہ تر اشیاء یعنی سبزیاں لاہور کے قرب و جوار ہی میں اگائی جاتی تھیں۔ علامہ اقبال ٹاؤن ہو یا ملتان روڈ کے دونوں جانب علاقے ‘ جہاں ہریالی ہی ہریالی تھی۔ آج لاہور کی آبادی پھیلتی جا رہی ہے‘ اب لاہور کے چاروں طرف نئی آبادیوں کی یلغار ہے اور یوں روزمرہ استعمال ہونے والی تازہ سبزیاں جو بیل گاڑیوں‘ ریڑھوں پر برائے نام کرایہ پر شہر میں پہنچ جاتی تھیں اب ان کو دور دراز سے لانا پڑتا ہے جس سے قیمتوں میں اضافہ ہوتا اور اس کا بوجھ خریدار ہی جیب پر پڑتا ہے جبکہ یہ بھی سچ ہے کہ جب بھی حکومت یوٹیلٹی بلوں میں اضافہ کرتی ہے تو اس کا اثر سب اشیاء پر پڑتا ہے اور اسی وقت قیمتوں میں اضافہ ہو جاتا ہے اور آج تو صورتحال اتنی دگرگوں ہے کہ ایک ہی اشیاء کی قیمتیں دکاندار ہو یا چھابڑی فروش‘ اس میں یکسانیت نہیں جس کا جہاں داؤ لگ جائے‘ وہ عوام کو لوٹنے کی کوشش کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج صبح اشیاء کی قیمتیں اور ہوتی ہیں جبکہ سرشام وہ اس اشیاء کو کم قیمت پر فروخت کرتے دکھائی دیتے ہیں مگر مہنگائی نے آج غریب آدمی کی زندگی اجیرن بنا کر رکھ دی ہے۔ غریب اپنے بچوں کو فروخت کرنے کیلئے بازار میں لے آیا ہے اور اس سے بڑا ظلم کیا ہوگا کہ کوئی ماں اپنے لخت جگر کو دو وقت کی روٹی کیلئے کسی اور کے سپرد کررہی ہے۔ یہ لمحہ فکریہ ہے اور حکومت کو ایسے اقدامات کرنے ہونگے کہ غریب کو دو وقت کی روٹی تو بآسانی میسر ہو۔
مہنگائی روکنے اور لوگوں کو اشیائے خورودونوش مقررہ نرخوں پر پہنچانے کے سلسلے میں ضلعی سطح پر ڈی پی او اور دیگر ادارے وقتاً فوقتاً اقدامات کرتے رہتے ہیں۔ دکانداروں کو نر خنامے نمایاں جگہ لگانے کی ہدایات بھی ہوتی ہیں اور گراں فروشوں کے خلاف اقدامات بھی کئے جاتے ہیں مگر دکاندار شکوہ کرتے ہیں کہ منڈی سے ہی اگر اشیاء مہنگی ملیں گی تو ہم کیا کریں۔ حکومتی ادارے وہاں کارروائی کرنے کی بجائے چھوٹے دکانداروں کو پکڑتے ہیں۔
مہنگائی کم کرنے کے سلسلے میں ملک بھر کے چھوٹے بڑے شہروں میں اتوار بازاروں کے ساتھ منگل‘ بدھ اور جمعرات بازار بھی لگائے جاتے ہیں جہاں بازاروں کی نسبت خریداروں کا ہجوم ہوتا ہے اور صوبائی وزیر خوراک اور دیگر سرکاری افسران ان بازاروں میں فروخت ہونے والی اشیاء کے معیار اور قیمت کا بھی جائزہ لیتے رہتے ہیں مگر وہاں خریداری کیلئے جانے والوں کو عموماً شکایت رہتی ہے کہ وہاں اگر کوئی سبزی‘ فروٹ سستا فروخت ہوتا ہے تو وہ اچھی کوالٹی کا نہیں ہوتا۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ مہنگائی کو کنٹرول کرنے کیلئے سخت اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے تاکہ سب کو اس سے فائدہ ہواور ایساکرنے کے لئے مزید اقدامات کی ضرورت ہے۔
Awam Ko Bijli Ka Jhatka is a national article, and listed in the articles section of the site. It was published on 30 August 2014 and is famous in national category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.
اسلام آباد کے مزید مضامین :
سیلاب کی تباہکاریاں اور سیاستدانوں کا فوٹو سیشن
Flood in Pakistan and Photosession of Politicians
اسلام آباد میں کرونا وائرس کی حقیقی صورت حال
coronavirus in islamabad
کل سکول میں چھٹی ہے
kal school mein chutti hai
منی بجٹ، تبدیلی حکومت کاخوش آئندہ اقدام
mini budget tabdeeli hukoomat ka khosh aindah iqdaam
تحریک انصاف کی اپنے مخالفین کے ساتھ چومکھی لڑائی
tehreek insaaf ki apne mukhalfin ke sath chomkhi larai
یورپین کوئل کتنی سیانی ہے
European Koel kitni siyani hae
دے جاوُو فطرت کا سربستہ راز
Deja vu fitrat ka sarbasta raaz
ٹائم اینڈ سپیس ٹائم
Time and spacetime
میئر اسلام آباد کی مشکلات
Mayor Islamabad Ki Mushkilat
اسلام آباد بند کرنے کی دھمکی
Islamabad Band Karne Ki Dhamki
سندھی کاشتکاروں کا استحصال
Hakomat Oro Opposition Arkaan Ka Walk Out Day
بے نظیر بھٹو قتل کیس
Benazir Bhutto Qatal Case
اسلام آباد سے متعلقہ
پاکستان کے مزید مضامین
-
مقبرہ جانی خان
-
خاموش سلطنت، میانی صاحب قبرستان
-
جاوید منزل کی تاریخی اہمیت
-
کھابے ، گلگت بلتستان کے ۔۔۔
-
چنیوٹ کا تاج محل
-
1965 کی جنگ میں پاکستان کی بحری افواج کا کردار
-
جوائنٹ میری ٹائم انفارمیشن کو آرڈینیشن سینٹر ۔ میری ٹائم انفارمیشن کا مرکز
-
میانوالی (پنجاب کا پختونخواہ)
-
علی چوہدری کی”ڈیجیٹل سلطنت“
-
پاک بحریہ: سات دہائیوں کی داستان
-
بلواکانومی کی ترقی کے لیے سمندر کے حوالے سے لاعلمی ختم کرنے کی ضرورت
-
پی این ایس یرموک: پاک بحریہ کی صلاحیتوں میں اضافے کا باعث