Ghairat

Ghairat

غیرت

اسی اثنا میں ڈور بیل بجی، شائستہ دروازہ کھولنے کیلئے اٹھی، اسے دروازے کی طرف بڑھتا دیکھ کر نعمان چیخ پڑا ’’دروازہ مت کھولنا‘"؛ لیکن اس دوران دروازہ کھل چکا تھا اور پولیس اندر گھس آئی

Babur Javed بابر جاوید جمعہ 30 جون 2017

شائستہ کی شائستگی نعمان کیلئے تصنع اور بناوٹ سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتی تھی، نعمان کے گھر میں داخل ہوتے ہی شائستہ کی طرف سے تپاک سے اس کا استقبال کرنا، محبت سے اس کا کوٹ اتارنا اور بڑے چاؤ سے کھانا میز پر سجانا اسے فریبی عورت کا ڈھونگ لگتا تھا۔ اسے یقین تھا کہ وہ احساس جرم کے تحت ایسا کرتی ہے دراصل وہ اس کے ساتھ بے وفائی کی مرتکب ہو رہی ہے۔
نعمان کے فون کا چہکتی ہوئی آواز میں جواب دینا بھی اسے زہر لگتا تھا، خاص طور پر وہ فون مصروف ہونے کی وجہ پوچھنے کے جواب میں کہتی ’’رخسانہ سے بات کر رہی تھی، ہفتے کا سات سو منٹ والا پیکیج کروایا ہوا ہے وہ بھی تو ختم کرنا ہوتا ہے اس لیے کال لمبی ہوگئی۔‘‘ وہ فون پٹخ کر بڑبڑاتا "مجھے سب پتہ ہے کون سی رخسانہ کے ساتھ اتنی لمبی گفتگو ہو رہی تھی؛ تین سال قبل شائستہ کی منگنی نبیل کے ساتھ ٹوٹنے کے بعد اس کی شادی نعمان سے ہوگئی تھی۔

(جاری ہے)

شائستہ نے نعمان کو بتایا تھا کہ نبیل گورا چٹا اور وجیہ نوجوان تھا، بری صحبت نے اسے شراب اور جوئے کی لت لگا دی تھی اور یہ لت اس کی پہلی ترجیح بن گئی تھی۔ شائستہ کا سمجھانا بجھانا بیکار ہوا تو رشتہ ٹوٹ گیا، شائستہ کی خوبصورتی کو بیان کرنے کیلئے شاید شاعروں کو بھی معمول سے زیادہ مشقت کرنا پڑتی جبکہ نعمان عام شکل و صورت اور سانولی رنگت کا مالک تھا، یہی وجہ تھی کہ اسے یقین نہیں ہوتا تھا کہ شائستہ سچے دل سے سگھڑ بیوی ہونے کا حق ادا کر رہی ہے، شائستہ کو رنگے ہاتھوں پکڑنے کیلئے کبھی کبھی ڈیوٹی کے اوقات میں اچانک گھر کے چکر لگا لیتا، وقتاً فوقتاً اس کا فون بھی کھنگالتا رہتا لیکن سوائے فون کے زیادہ وقت تک مصروف رہنے کے اس کے ہاتھ کچھ نہ آیا پھر بھی اسے شک تھا کہ شائستہ نبیل کو پوری طرح دل سے نہیں نکال سکی اور شادی کے بعد بھی اس کا نبیل کے ساتھ تعلق قائم ہے۔
شائستہ نے کبھی بھی نعمان کے بجھے بجھے اور خشک رویے کے بارے میں سنجیدگی سے نہیں سوچا تھا، اس کا خیال تھا سکیورٹی ادارے میں سخت ڈیوٹی انجام دینے کی وجہ سے یہ رویہ اس کی فطرت بن گیا ہے، ایک دن اتفاق سے باس کا مزاج خوشگوار تھا، موقع کو غنیمت جان کر نعمان نے کچھ دیر کی چھٹی لے لی اور سوچوں میں غرق گھر کی طرف روانہ ہو گیا، ابھی وہ گھر سے چند ہی گز کے فاصلے پر تھا کہ اسے اپنے درواذے سے موٹر بائیک نکلتی دکھائی دی، ایک گورا چٹا وجیہ نوجوان انتہائی خوشگوار موڈ میں پیچھے دیکھ کر ہاتھ ہلاتے ہوئے سڑک تک آ گیا، پیچھے یقیناً شائستہ تھی، نعمان نے اپنی بائیک ایک درخت کی اوٹ میں کر لی، اس کے دماغ میں آندھیاں چل رہی تھیں، ’’تو یہ کھیل کھیلا جا رہا ہے میرے گھر میں‘‘؛ وہ اتنی زور سے بڑبڑایا کہ چند گز دوربھی کوئی ہوتا تو وہ سن لیتا، خود کو سنبھالنے میں اسے کچھ ہی دیر لگی ہوگی پھر سوچتے ہوئے اس نے بائیک کا سلف دبا دیا۔
شام کو نعمان معمول سے زیادہ مضمحل گھر میں داخل ہوا تو شائستہ نے معمول سے زیادہ گرم جوشی سے اس کو خوش آمدید کہا، کوٹ اتارتے ہوئے اس نے نعمان کا چہرہ دیکھتے ہوئے پوچھا ’’آج کچھ زیادہ ہی تھکے ہوئے لگ رہے ہو‘‘؛ ’’اور تم کچھ زیادہ ہی فریش لگ رہی ہو‘‘؛ نعمان کے لہجے میں طنز تھا جسے شائستہ نے محسوس نہیں کیا اور بولی ’’ہاں، ہاتھ منہ دھو کر کھانا کھا لو میں تمہیں سرپرائز دینے والی ہوں‘"؛ ’’آج کچھ کھانے کو دل نہیں چاہ رہا‘‘؛ نعمان نے ڈائننگ ٹیبل پر ڈھیر ہوتے ہوئے کہا‘‘ لو میں نے اتنی چاہت سے تمہارے پسندیدہ قیمے بھرے کریلے بنائے ہیں، میں لارہی ہوں،‛ کھاؤ گے تو مزہ آ جائے گا‘‘ اتنا کہہ کر شائستہ کچن کی طرف بھاگی، کھانا میز پر لگاتے ہوئے شائستہ نے داد طلب نظروں سے نعمان کو دیکھا لیکن وہ بیگانہ سا بنا بیٹھا تھا، شائستہ نے اپنے ہاتھوں سے نوالہ بنا کر اس کی طرف بڑھایا جسے اس نے بادل نخواستہ منہ میں ڈال لیا، ’’اور یہ ہے سرپرائز‘‘؛ شائستہ نے اٹھلاتے ہوئے ایک چیک اس کے آگے رکھ دیا؛  ’’یہ ---- یہ کیا ہے؟‘‘ نعمان نے تعجب سے پوچھا ’’قرض اتارو موڈ سنوارو‘‘ شائستہ شرارت بھرے لہجے میں بولی ’’راحیل بھائی چار سال بعد انگلینڈ سے واپس آئے ہیں، میں نے ان سے تمہارے قرض کا ذکر کیا تو انہوں نے یہ کہہ کر چیک لکھ دیا کہ شادی کا تحفہ سمجھ کر رکھ لوں‘‘۔
نعمان کی آنکھوں میں پریشانی اتر آئی، اس نے دونوں ہاتھوں سے اپنا سر تھام لیا، شائستہ کیلئے اس کی یہ حالت ناقابل فہم تھی، اس نے ہمدردی سے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا ’’اسے قبول کرو نعمان، انا کا مسئلہ مت بناؤ، ہم آپس میں ایک دوسرے کے کام نہیں آئیں گے تو اور کون ہمارے درد بانٹے گا؟‘‘ نعمان کی آنکھیں آنسوؤں سے تر ہو گئیں، اس کے ہونٹ کانپ رہے تھے، وہ بہت کچھ کہنا چاہ رہا تھا لیکن اس کے منہ سے نکلنے والے بے ربط الفاظ شائستہ کی سماعت کو غیر مانوس لگ رہے تھے، اسی اثنا میں ڈور بیل بجی، شائستہ دروازہ کھولنے کیلئے اٹھی، اسے دروازے کی طرف بڑھتا دیکھ کر نعمان چیخ پڑا ’’دروازہ مت کھولنا‘"؛ لیکن اس دوران دروازہ کھل چکا تھا اور پولیس اندر گھس آئی، دو پولیس والوں نے آتے ہی بے سدھ بیٹھے نعمان کو دبوچ لیا، ’’سوری مسٹر نعمان ہم آپ کو راحیل نامی شخص کے قتل کے الزام میںں گرفتار کر رہے ہیں جس کی لاش ہمیں نیلم کالونی کے سامنے ویرانے سے ملی ہے‘‘؛ ’’مم -- میں کیوں کسی کو قتل کروں گا‘‘؛ شائستہ نے بھانپ لیا تھا کہ نعمان کا لہجہ اس کے جھوٹ کی چغلی کھا رہا ہے، وہ لپک کر نعمان کا گریبان پکڑتے ہوئے چلائی ’’یہ تم نے کیوں کیا نعمان؟‘‘؛ ’’مم --- میں نے کچھ نہیں کیا شائستہ؛ یہ لوگ جھوٹ بول رہے ہیں‘‘ نعمان منمنایا۔
’’ہم جھوٹ بول رہے ہیں لیکن تمہارا یہ سروس بیج تو سچ بول رہا ہے نا جو مزاحمت کے دوران مقتول کے ہاتھ میں رہ گیا تھا؛ بغیر کسی حیل و حجت کے ہمارے ساتھ چلو‘‘؛ انسپکٹر نے دھمکایا تو نعمان نے بوجھل قدموں کے ساتھ چلنا شروع کر دیا؛ شائستہ دروازے تک بمشکل پہنچ سکی؛ اب اس پر نعمان کے کھردرے روئیے کی وجہ کھلنا شروع ہو گئی تھی----

Ghairat is a social article, and listed in the articles section of the site. It was published on 30 June 2017 and is famous in social category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.

لاہور کے مزید مضامین :