Qarar Daad Lahore Pas Manzar O Paish Manzar
قرار داد لاہور،پس منظر و پیش منظر
مملکت خداداد پاکستان کے یو م آزادی 14اگست 1947ئسے پہلے کے سیاسی حالات کا بنیادی سرا 23مارچ 1940ء سے منسلک ہے۔،
ہفتہ 23 مارچ 2019
ڈاکٹر وحید قریشی
مملکت خداداد پاکستان کے یو م آزادی 14اگست 1947ئسے پہلے کے سیاسی حالات کا بنیادی سرا 23مارچ 1940ء سے منسلک ہے۔، جب مارچ کے ان ایام میں مسلمانوں میں غم اور خوشی کے ملے جُلے جذبات کا طوفان برپا تھا ایک طرف لاہور کے گلی کوچے خاکساروں کے خون کے چھینٹوں سے سوگوار تھے۔ دوسری جانب 1940ء کے یادگار جلسے کی تیاریاں تکمیل کے مراحل میں تھیں۔
اس دوران صرف ایک شام قبل خاکسار تحر یک کی سرگرمیوں پر بند ش کا اعلان ہوا تھا۔ اگلے روزچپ راست کی صداؤں میںبرطانوی استعمار کی بندوقوں کے سامنے سینہ سپر ہو کر خاکسار تحریک دم توڑ چکی تھی۔1930ء کے بعد سے برصغیر پاک و ہند میں مسلمانوں کی جانب سے یہ جد وجہد کے عروج کا زمانہ تھا۔
(جاری ہے)
ٹھیک دس برس پہلے راوی کے کنارے کانگرس کے اعلانِ آزادی نے بھی لاہور کے لوگوں کو اس طرح متاثر نہیں کیا تھا۔
عسکری قوت نے کئی رُوپ اختیار کیے۔ ہندوئوں ‘ مسلمانوں اور دوسری اقوام میں خدمتِ خلق کے سہارے منظم ہو کر اپنے آپ کو ایک مرکز پر جمع کرنے کی کئی کوششیں بھی ہوتی رہیں۔ سیاسی لحاظ سے برطانوی حکومت کی پشت پناہی کا کام بھی پنجاب کی حکومت کے حصے میں آیا ۔یہ وہ ایام تھے جب سرسکندر کے خلاف غیظ وغضب کا شدید ابھارتھا۔ تحریک پر جس خون آشامی سے حملہ کیا گیا تھااس کی وجہ سے خاکسار تحریک سے تعلق رکھنے والوں کی ہمدردیاں بھی حکومت مخالف تھیں۔ایسے میں قرارداد لاہور کے لیے منعقدہونے والاجلسہ جو صرف چنددنوں بعد ہونا تھا اپنے جلومیں غم کے کئی سائے لے کرآیا تھا۔ مسلم لیگ کا پنڈال منٹو پارک میں بنا جو آجکل اقبال پارک کہلاتا ہے۔اس زمانے میں مسلمانوں کے دلوں میں جوش وخروش موجزن تھا۔اس کا اظہار اس جلسے کی رُوداد میں ہوتاہے۔اسلامیہ کالج اور اسلامیہ سکولوں کے طالب علموںنے پہلی بارسیاسی جدوجہد میں شریک ہو کراس جلسے کی کامیابی کا سامان کیاتھا۔طالب علموں کی دلچسپی اس بات کا ثبوت تھی کہ وہ اپنے اس زمانے کی حکومت سے دل برداشتہ تھے۔اور جذبات کے نکاس کے لیے کوئی موزوں راستہ تلاش کررہے تھے۔لیگ کے پنڈال میں مسلسل تین دن رونق رہی۔لاہور کی تاریخ نے تقسیم سے قبل اتنابڑاکوئی اجتماع نہ دیکھا تھا۔ کسی کو یہ معلوم نہ تھا کہ اس موقع پر کیا قرارداد منظور ہو گی لیکن اتنا ضرور محسوس ہو رہا تھا کہ خاکساروں کے اتنے بڑے حادثے کے بعد کوئی طوفان آنے والا ہے جس میں مسلمانوں کو من حیث الجماعت اہم کردار ادا کرنا ہے۔
گویا غم اور خوشی کے ملے جُلے جذبات نے بے دلی اور بیزاری کے بجائے آتش فشاں کا انتظام کر رکھا تھا۔جلسے میں قائد اعظم کی ولولہ انگیز تقریر‘ اے کے فضل الحق کا قرارداد پیش کرنا‘ نواب بہادر یار جنگ کی خطابت ‘ مولانا ظفر علی خان کی شعلہ بیانی‘ خلیق الزمان کی آتش نوائی‘ قاضی عیسیٰ اور نواب اسماعیل کے خوش آئند منصوبوں کے لیے ہاتھ پائوں مارنے کا عزم کرتے کئی کئی گھنٹے کے مسلسل اجلاس میں لوگوں کا تحمل اور انہماک دیدنی تھا۔
رات گئے تک جلسے ہوئے ۔ طالب علم رات گئے جلسوں میں شریک رہتے اور اپنے محبو ب لیڈروں کی تقرریں سُنتے اور بالآخر یہ عزم لے کر اُٹھتے کہ برصغیر میں مسلمانوں کو اگر زندہ رہنا ہے تو اُنہیں اب ہندوئوں کی طرف سے مایوس ہو جانا چاہیے۔ اپنی اقدار کے حوالے سے اگر زندگی بسر کرنی ہے تو الگ ملک کا مطالبہ ان کا آئینی حق ہے۔ اس احساس نے سات برس کی قلیل مدّت میں مسلمانوں کو اپنے خوابوں کی تعبیر کے لیے جدوجہد میں مصروف رکھا۔ شملہ کانفرنس‘ الیکشن ‘ جلسے جلوس یہ سب لاہور کے مقدّر میں تھے جس میں زندہ دلانِ پنجاب نے تن من کی بازی لگا دی۔ دُوسرے صوبوں اور دوسرے علاقوں کے مسلمانوں نے اس عظیم جدوجہد میں اپنا کردار ادا کیا ۔اس کے باوجود کہ پنجاب میں مسلمانوں کو جن اپنے ہی غدّاروں کا سامنا تھا،ان کی تدبیریں کام نہ آ سکیں۔پنجاب کے مسلمان‘ سرکار پرستوں کے خلاف اپنے جذبات کا اظہار کر چکے تھے۔
ان آنکھوں نے مسلم لیگ کے اس عظیم الشان اجتماع کے دوسرے روز سر سکندر حیات کو مسلم لیگ کے پنڈال میں پچھلے دروازے سے داخل ہوتے دیکھا تھا۔ جلسے میں سر سکندر حیات اپنی نشست پر بیٹھ گئے تو ہلچل پیدا ہوئی اور وہ نعرے لگے اور غم و غصے کا وہ اظہار ہوا کہ سر سکندر کے قدم ہی لڑکھڑاگئے اور اس نے پچھلے دروازے سے نکل کر کار میں بیٹھنے کی کوشش کی۔ نوجوانوں نے کار کو گھیرے میں لے لیا اور لیگ کے والنٹیئروں نے بڑی مشکل سے پنجاب کے وزیر اعلیٰ کو عوام کے غیظ و غضب سے بچا کر نکلنے کا موقع دیا۔ اس کے بعد حکومت کے کارندے چوری چُھپے ہی شریک ہوئے اور برسرِ عام کسی کو تقریر کرنے یا سامنے آنے کا حوصلہ نہ ہوا۔ 14اگست 1947ء کی صبح جس نئی سر زمین کا پیغام لے کر آئی۔ اس سے پہلے اور بعد کے درمیان کچھ ایسے رشتوں کی بنیاد اسی 23 مارچ کے روز رکھی گئی تھی تھے جن میں ماضی کی کچھ تلخ یادیں احساسات کی کئی بہاریں ساتھ ساتھ موجزن تھیں۔qarar daad Lahore pas manzar o paish manzar is a national article, and listed in the articles section of the site. It was published on 23 March 2019 and is famous in national category. Stay up to date with latest issues and happenings around the world with UrduPoint articles.
متعلقہ عنوان :
لاہور کے مزید مضامین :
مقبرہ جانی خان
Maqbara Jaani Khan
خاموش سلطنت، میانی صاحب قبرستان
Khamosh Saltanat
جاوید منزل کی تاریخی اہمیت
Javed Manzil Ki Tareekhi Ehmiyat
علی چوہدری کی”ڈیجیٹل سلطنت“
Ali Chaudhry Ki Digital Saltanat
پاک بحریہ: سات دہائیوں کی داستان
Pakistan Navy: Tale of Seven Decades
بلواکانومی کی ترقی کے لیے سمندر کے حوالے سے لاعلمی ختم کرنے کی ضرورت
Blue Economy Ke liye Samandar Ke Hawale se La-ilmi Khatm Kerne ki Zarorat
جھوٹ کے نقصانات اور ہمارا معاشرہ
Jhoot Ke Nuqsanat Aur Humara Muashra
عالمی یوم ہائیڈروگرافی اور سمندروں کی نقشہ سازی
World Hydrography Day
پاکستان، آفات اور الخدمت
alkhidmat
حنین ، صلاح الدین اور ہم ---ذمہ دار کون ؟
Hanain Salahuddin or hum
یوم قرارداد پاکستان اور سبز ہلالی پرچموں کی بہار
yom qarardad Pakistan aur sabz hilali parchmon ki bahhar
قرار داد لاہور،پس منظر و پیش منظر
qarar daad Lahore pas manzar o paish manzar
لاہور سے متعلقہ
پاکستان کے مزید مضامین
-
سیلاب کی تباہکاریاں اور سیاستدانوں کا فوٹو سیشن
-
کھابے ، گلگت بلتستان کے ۔۔۔
-
چنیوٹ کا تاج محل
-
1965 کی جنگ میں پاکستان کی بحری افواج کا کردار
-
جوائنٹ میری ٹائم انفارمیشن کو آرڈینیشن سینٹر ۔ میری ٹائم انفارمیشن کا مرکز
-
میانوالی (پنجاب کا پختونخواہ)
-
پی این ایس یرموک: پاک بحریہ کی صلاحیتوں میں اضافے کا باعث
-
اسلام آباد میں کرونا وائرس کی حقیقی صورت حال
-
ہندوستان کی تاریخ میں تاریخ ساز کردار اداکرنے والے ضلع جھنگ کا پس منظر اور تعارف
-
علم کی شمع روشن کرنے والے ڈاکٹر ساجد اقبال شیخ تحسین کے مستحق ہیں!!!
-
پاکستان میں شعبہ نرسنگ کی جدت ساز باہمت خاتون ،، مسز کوثر پروین ڈائریکٹر جنرل نرسنگ پنجاب
-
چنیوٹ کا عمر حیات محل جو تاج محل سے مماثلت بھی رکھتا ہے