ملک کے سیاسی اکابرین قومی وجود کو لاحق بیماری کی وجہ تلاش کریں،اب بھی ہم منافقت اور خود فریبی سے کام لیتے رہے تو یہ پاکستان کی آنے والی نسلوں سے بیوفائی ہو گی،

عوام کے ووٹ کی عزت بحال نہ ہوئی تو ملک خدانخواستہ گرداب میں گھرا رہے گا، وفاداریاں تبدیل کرنے والوں میں سے کسی کو مسلم لیگ (ن) کا ٹکٹ نہیں دیں گے، مسلم لیگ (ن) کے قائد و سابق وزیراعظم محمد نواز شریف کا ’’ووٹ کو عزت دو‘‘ کے عنوان سے منعقدہ سیمینار سے خطاب

منگل 17 اپریل 2018 23:11

ملک کے سیاسی اکابرین قومی وجود کو لاحق بیماری کی وجہ تلاش کریں،اب بھی ہم منافقت اور خود فریبی سے کام لیتے رہے تو یہ پاکستان کی آنے والی نسلوں سے بیوفائی ہو گی،
اسلام آباد ۔ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 17 اپریل2018ء) مسلم لیگ (ن) کے قائد و سابق وزیراعظم محمد نواز شریف نے ملک کے سیاسی اکابرین سے کہا ہے کہ وہ قومی وجود کو لاحق بیماری کی وجہ تلاش کریں، اگر اب بھی ہم منافقت اور خود فریبی سے کام لیتے رہے تو یہ پاکستان کی آنے والی نسلوں سے بیوفائی ہو گی، اگر عوام کے ووٹ کی عزت بحال نہ ہوئی تو ملک خدانخواستہ گرداب میں گھرا رہے گا، وفاداریاں تبدیل کرنے والوں میں سے کسی کو مسلم لیگ (ن) کا ٹکٹ نہیں دیں گے، ایسے فصلی بیٹروں کو عوام عبرتناک شکست دیں گے۔

منگل کو یہاں نیشنل لائبریری میں ’’ووٹ کو عزت دو‘‘ کے عنوان سے منعقدہ سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے نواز شریف نے کہا کہ مولانا فضل الرحمٰن، محمود اچکزئی، حاصل بزنجو، میاں افتخار حسین، یاسین آزاد اور دیگر قائدین سے بہت کچھ سیکھا ہے، مولانا فضل الرحمن نے اندر کی بات پوچھی ہے تو مولانا صاحب کو بتانا چاہتا ہوں کہ اندر والی باتیں بہت ہیں وہ انہیں علیحدگی میں بتائیں گے۔

(جاری ہے)

سیمینار کا موضوع صرف چار الفاظ پر مشتمل ہے جو ملک کا سب سے مقبول نعرہ بن گیا ہے، یہ نعرہ اپنے اندر ملک کی پوری سیاسی تاریخ سموئے ہوئے ہے۔ انہوں نے کہا کہ قائداعظم بانی پاکستان کی ساری جدوجہد جمہوری تھی مگر افسوسناک بات یہ ہے کہ اس ملک میں جمہوریت مستحکم نہیں ہو سکی، جمہوریت اجنبی نظریہ نہیں، یہ عوام کی حکمرانی کا نام اور عوامی رائے کا سب سے مستند پیمانہ ہے، عوام اپنے ووٹ کے ذریعے فیصلہ کرتے ہیں کہ وہ کس جماعت کو حق حکمرانی دیں گے، پھر سب اس فیصلہ کو تسلیم کرتے ہیں، جمہوریت، آئین اور ریاستی نظام کا تقاضا یہی ہے کہ عوام کی رائے کا احترام کیا جائے، جب کوئی عوام کی رائے کو کچلنے کیلئے اپنی رائے مسلط کرتا ہے اور اپنی مرضی کے حکمران تراشتے ہیں تو اس کو عوام کے ووٹ کی توہین کہا جاتا ہے، ہم سب ’’ووٹ کو عزت دو‘‘ کی تحریک لے کر نکلے ہیں، ماضی میں عوام کی رائے کو کس طرح کچلا گیا اور اسے کس طرح غیر جمہوری ہتھکنڈوں کا نشانہ بنایا گیا ہے، سیاسی اکابرین قومی وجود کو لاحق بیماری کی وجہ تلاش کریں، اگر منافقت اور خود فریبی سے کام لیتے رہے تو یہ پاکستان کی آنے والی نسلوں اور اس کیلئے قربانیاں دے کر قائم کرنے والوںکے ساتھ بیوفائی ہو گی۔

انہوں نے مولوی تمیز الدین کیس کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ گورنر جنرل غلام محمد نے پہلی دستور ساز اسمبلی برطرف کی، اس کیس سے گورنر جنرل غلام محمد، ایوب خان اور جسٹس منیر جیسے نام سامنے آئے، آزادی کے 9 سال بعد 23 مارچ 1956ء کو پہلا آئین نافذ کیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ تاریخ سے صاف واضح ہے کہ آئین سازی کے عمل کو کس طرح ناکام بنایا جا رہا ہے، تاریخ کا افسوسناک پہلو یہ ہے کہ ہر مارشل لاء کے جاری کردہ پی سی او کو نظریہ ضرورت کا جواز فراہم کیا گیا۔

انہوں نے کہا کہ قیام پاکستان کے 23 سال بعد مشرقی اور مغربی پاکستان کے عوام نے ووٹ کے ذریعے رائے دی، عوامی رائے یعنی ووٹ کو عزت نہیں دی گئی، نتیجتاً پاکستان ٹوٹ گیا۔ 1973ء میں ذوالفقار علی بھٹو نے دیگر سیاستدانوں کے ساتھ مل کر آئین بنایا، 1977ء میں مارشل لاء لگا، ملک کا پہلا وزیراعظم پھانسی پر چڑھا دیا گیا، پھر 1985ء میں منتخب ہونے والے محمد خان جونیجو کو گھر بھیج دیا گیا، 1988ء میں منتخب ہونے والی وزیراعظم کی اسمبلی برطرف کر دی گئی، اس طرح 1990ء، 1993ء اور 1997ء میں منتخب ہونے والی اسمبلیاں برطرف کردی گئیں ۔

2008ء میں بھی پیپلز پارٹی کے وزیراعظم اپنی مدت پوری نہ کر سکے۔ 2013ء میں عوام نے مجھے تیسری بار وزیراعظم منتخب کیا، مجھے میرے بیٹے سے خیالی تنخواہ نہ لینے پر برطرف کر دیا گیا، ووٹ کی عزت کا نوحہ یہ ہے کہ 38 برس میں 20 وزیراعظم آئے، ہر وزیراعظم کے حصہ میں تقریباً 2 سال کا عرصہ آیا جبکہ 4 آمروں کے حصہ میں اوسطاً 8، 8 سال حکمرانی کے آئے۔

انہوں نے کہا کہ بھٹو پھانسی چڑھ گیا، بے نظیر قتل کر دی گئی، مجھے ہائی جیکر بنایا گیا، جیل بھیجا گیا اور جلاوطن کر دیا گیا، اگر عوام کے ووٹ کی عزت بحال نہ ہوئی تو پاکستان خدانخواستہ گرداب میں گھرا رہے گا۔ انتظامیہ ریاست کا انتہائی اہم ستون ہے مگر اسے مفلوج کر دیا گیا ہے، انہوں نے کہا کہ جس طرح ہمیں نشانے پر رکھ لیا گیا ہے ان حالات میں منصفانہ الیکشن کا انعقاد کیسے ممکن ہو گا، سینیٹ الیکشن میں ہمارے امیدواروں سے جماعتی شناخت چھین لی گئی، مسلم لیگ (ن) کے سیاسی رہنما نیب کے نشانے پر ہیں، ووٹ کی عزت اور ناموس کو مجروح کیا جا رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ میری عمر بھر کی نااہلی کی کڑیاں 2014ء کے دھرنے سے ملتی ہیں جس کے دوران ایمپائر کی انگلی کے اشارے کا انتظار کیا جاتا رہا، میرے خلاف اس برتائو کا سبب یہی ہے کہ ووٹ کو عزت نہیں دینی،انہوں نے کہا کہ بڑی جماعتوں کو توڑنے اور کمزور کرنے سے ملکی سلامتی اور جمہوری نظام کو نقصان پہنچے گا۔ انہوں نے کہا کہ میں عمر بھر نااہلی کے مقدمہ میں درخواست گزار تھا نہ فریق، مجھے اندازہ تھا کہ کیا فیصلہ آنے والا ہے۔

حقیقت میں میرا جرم یہی ہے کہ میرا نام محمد نواز شریف ہے اور تیسری بار پاکستان کے عوام نے مجھے وزیراعظم چنا۔ قائداعظم نے کہا تھا کہ عوامی رائے کبھی غلط نہیں ہوتی مگر یہاں کا دستور الٹا ہے،ممکن ہے کہ میرے مخالفین اپنی فتح پر خوش ہوں مگر کوئی ہے جو یہ سوچے کہ پاکستان پر کیا گزر رہی ہے، ملک کے سیاسی، کاروباری اور جمہوری استحکام کو نقصان پہنچا ہے، عوامی مینڈیٹ کی اس توہین سے اداروں کے درمیان اعتماد کا فقدان بڑھا ہے، جس طرح تحریک آزادی کے دنوں میں ہمارے بزرگوں نے کردار ادا کیا ہے اس طرح ووٹ کی عزت کیلئے نوجوانوں کو نکلنا ہو گا۔

وفاداریاں تبدیل کرنے والوں میں سے کسی کو ٹکٹ نہیں دیں گے، ایسے فصلی بٹیروں اور وفاداریاں تبدیل کرنے والوں کو عبرتناک شکست دیں گے، ان کے مقابلہ میں ہم نمبر دو، نمبر تین پر شخص کو ڈھونڈیں گے، ہم نے ایسا فیصلہ لودھراں والے الیکشن میں کیا اور الله نے شیر کے نشان پر گمنام شخص کو بھاری اکثریت سے کامیاب کیا۔ انہوں نے کہا کہ میں نے لوگوں کی آنکھوں میں نئی چمک دیکھی ہے، لوگوں میں جذبہ بڑھا ہے، یہی نوجوان نسل ملک کی تقدیر بدلے گی، نیا پاکستان بنانے والوں نے سینٹ کے الیکشن میں تیر کے نشان پر ووٹ ڈالا۔ نواز شریف نے کہا کہ صرف نواز شریف اور ہمارے پارٹی کارکن ایمپائر کی انگلی کی طرف نہیں دیکھتے، ہمارے پیش نظر آنے والی نسلیں ہیں۔

اسلام آباد میں شائع ہونے والی مزید خبریں