وزیر اعلیٰ بلوچستان جام کمال اکثریت کھو چکے ہیں، آغا حسن

وزیراعلیٰ کا مسئلہ نہیں ہے مسئلہ طرز حکمرانی کا ہے،تحریک عدم اعتماد جمہوری طرز عمل ہے، پریس کانفرنس

ہفتہ 23 اکتوبر 2021 00:08

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 22 اکتوبر2021ء) بلوچستان نیشنل پارٹی( مینگل ) کے مرکزی سیکرٹری اطلاعات رکن قومی اسمبلی آغا حسن بلوچ نے کہا ہے کہ وزیر اعلیٰ بلوچستان جام کمال اکثریت کھو چکے ہیں، بلوچستان کی روایات ہیں،وزیراعلیٰ کا مسئلہ نہیں ہے مسئلہ طرز حکمرانی کا ہے،تحریک عدم اعتماد جمہوری طرز عمل ہے۔ممبران بلوچستان اسمبلی کے لاپتہ ہونے پر تشویش لاحق ہے۔

بلوچستان کی خواتین ارکان اسمبلی کو بھی لاپتہ کیا گیا ہے۔ بلوچستان میں طاقت کے زریعے تحریک عدم اعتماد کو روکا جا رہا ہے،طاقت کے زور پر خیالات تبدیل نہیں کئے جا سکتے،عدم اعتماد کو ناکام بنانے کے لئے دھمکیاں دینے، پیسے آفر کرنے سمیت تمام آپشن استعمال کئے جا رہے ہیں، قومی اسمبلی میں بولنے کا موقع مانگ رہے تھے جو نہیں دیا جا رہا ہے جس پر پیپلزپارٹی نے ہمارے ساتھ مل کر واک آئوٹ کیا ہے، چیف جسٹس آف پاکستان اور چیف جسٹس بلوچستان ہائیکورٹ اس معاملے پر از خود نوٹس لیں۔

(جاری ہے)

نیشنل پریس کلب اسلام آباد میں اپنے دیگر ساتھیوں کے ہمراہ ایک پریس کانفرنس کرتے ہوئے بلوچستان نیشنل پارٹی ( مینگل ) کے مرکزی سیکرٹری اطلاعات رکن قومی اسمبلی آغا حسن بلوچ نے کہا کہ پچھلے ڈیڑھ ماہ سے بلوچستان میں سیاسی بحران ہے،اس سیاسی بحران کی وجہ سے بلوچستان کے عوام متاثر ہو رہے ہیں، باپ کے ناراض ارکان کی جانب سے وزیراعلی بلوچستان کے خلاف تحریک عدم اعتماد لائی گئی ہے۔

انہوںنے کہاکہ وزیر اعلی بلوچستان جام کمال اکثریت کھو چکے ہیں مگر وہ اب بھی جانے کو تیار نہیں ہیں،سابق جمہوری دور میں بلوچستان کے لوگوں کو لاپتہ کیا جاتا تھا۔تحریک عدم اعتماد جمہوری طرز عمل اور اراکین اسمبلی کا جمہوری حق ہے۔انہوںنے کہاکہ المیہ ہے کہ بلوچستان میں ایم پی ایز لاپتہ ہو گئے ہیں، ممبران بلوچستان اسمبلی کے لاپتہ ہونے پر تشویش لاحق ہے،دنیا میں کیا پیغام دینا چاہتے ہیں ایک شخص کو بچانے کے لئے ایم پی ایز کو لاپتا کیا جا رہا ہے۔

انہوںنے کہاکہ بلوچستان کی خواتین ارکان اسمبلی کو بھی لاپتہ کیا گیا ہے،بلوچستان میں طاقت کے زریعے تحریک عدم اعتماد کو روکا جا رہا ہے،کیا بلوچستان کے لوگوں کو اپنی رائے دینے کا حق نہیں ہے،ارباب اختیار بلوچستان کے حالات کو سمجھیں۔ انہوںنے کہاکہ چونتیس سے پینتیس ایم پی ایز سپیکر بلوچستان کے گھر محسور ہو کر رہ گئے ہیں، ہم بلوچستان کے باسی ہیں ہمیں بھی پاکستان کے شہری طور پر اپنی مرضی زندگی گزارنے کا حق حاصل ہے تاہم ایسے طرز عمل سے آپ نہیں کہہ سکتے کہ بلوچستان میں جمہوریت ہے کیونکہ جب ممبران اسمبلی اغواء ہو رہے ہوں تو کیسے کہہ سکتے ہیں ملک کے حالات بہتر ہوئے ہیں۔

انہوںنے کہاکہ طاقت کے زور سے مسائل حل نہیں ہوتے،چیف جسٹس آف پاکستان اور بلوچستان ہائی کورٹ کے چیف جسٹس سے درخواست ہے کہ وہ بلوچستان کے حالات پر از خود نوٹس لیں۔ حکومت پاکستان اور بلوچستان پولیس بھی بلوچستان کے لاپتہ ارکان اسمبلی کو بازیاب کروائیں۔ ایسی روش اپنانے اور طاقت کے زور پر خیالات تبدیل نہیں کئے جا سکتے۔ انہوںنے کہاکہ بلوچستان کے معاملات میں سیاسی طرز روش کو اپنا جائے۔

ارباب اختیارات کی ذمہ داری ہے کہ وسیع تر مفاد میں اچھے اقدام اٹھائیں جائیں۔ قومی اسمبلی میں بولنے کا موقع مانگ رہے تھے جو نہیں دیا جا رہا ہے جس پر پیپلزپارٹی نے ہمارے ساتھ مل کر واک آئوٹ کیا ہے،بلوچستان کی روایات ہیں۔وزیراعلی کا مسئلہ نہیں ہے مسئلہ طرز حکمرانی کا ہے۔ عدم اعتماد کو ناکام بنانے کے لئے دھمکیاں دینے، پیسے آفر کرنے سمیت تمام آپشن استعمال کئے جا رہے ہیں۔پچیس اکتوبر کو ہونے والی ووٹنگ کے عمل میں شرکت کے لئے ایم پی ایز کو لاپتہ کیا گیا ہے۔لاپتہ ارکان کو آسمان کھا گیا یا زمین نگل گئی ملکی ادارے انہیں بازیاب کروائیں۔

اسلام آباد میں شائع ہونے والی مزید خبریں