ججز کے خط کے معاملے پر اسلام آباد ہائی کورٹ کا فل کورٹ اجلاس میں ججزکی تجاویزبارے تبادلہ خیال

cفل کورٹ اجلاس کم وبیش تین گھنٹے تک جاری رہا،ذرائع

منگل 23 اپریل 2024 23:06

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 23 اپریل2024ء) 6 ججز کے خط کے معاملے پر اسلام آباد ہائی کورٹ کا فل کورٹ اجلاس میں ججزکی تجاویزبارے تبادلہ خیال کیاگیاہے۔منگل کوچیف جسٹس عامر فاروق کی سربراہی میں ججزنے فل کورٹ اجلاس میں شرکت کی جس میں سپریم جوڈیشل کونسل کو خط لکھنے والے 6 ججز بھی اجلاس میں شریک تھے ان میں جسٹس محسن اختر کیانی، جسٹس طارق جہانگیری، جسٹس بابر ستار، جسٹس سردار اعجاز اسحاق، جسٹس ارباب محمد طاہر اور جسٹس ثمن رفعت امتیاز بھی اجلاس میں موجود ہیں۔

اسی طرح خط پر دستخط نا کرنے والے جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب بھی اجلاس میں شریک ہوئے۔ذرائع نے بتایاہے کہ فل کورٹ اجلاس کم وبیش تین گھنٹے تک جاری رہاجس میں ججزکی جانب سے سپریم جوڈیشل کونسل کولکھے گئے خط اور سپریم کورٹ کی ہدایت کی روشنی میں معاملات کاجائز ہ لیاگیاججزکی انفرادی رائے بھی لی گئی ،ذرائع نے مزیدبتایاکہ ججزکی جانب سے جوخط لکھاگیاتھااس پر بھی بات کی گئی ،اور سپریم کورٹ میں ہونے والی سماعت ،چیف جسٹس قاضی فائزعیسییٰ کی جانب سے فل کورٹ اجلاس پھر وزیراعظم میاں شہبازشریف سے ملاقات ،اور دیگرحوالوں سے بھی معاملات کاجائزہ لیاگیا،انکوائری کمیشن کی تشکیل بعدازاں سابق چیف جسٹس تصدق جیلانی کی جانب سے معذرت بارے بھی تبادلہ خیال کیاگیا،یاد رہے کہ سپریم کورٹ کے احکامات کی روشنی میں ہائیکورٹ ججز پہلے ہی اپنی تجاویز جمع کرا چکے ہیں۔

(جاری ہے)

واضح رہے کہ 3 اپریل کو اسلام آباد ہائی کورٹ کے 6 ججز کے خط پر سپریم کورٹ کے از خود نوٹس پر سماعت کے دوران چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے ریمارکس دیے کہ عدلیہ کی خودمختاری پر سمجھوتہ نہیں کریں گے، ہوسکتا ہے آئندہ سماعت پر فل کورٹ تشکیل دے دیں۔واضح رہے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے 6 ججز کے خط کا ازخود نوٹس لیتے ہوئے 7 رکنی لارجر بینچ تشکیل دیا تھا۔

واضح رہے کہ 25 مارچ کو اسلام آباد ہائی کورٹ کے 6 ججز نے ججز کے کام میں خفیہ ایجنسیوں کی مبینہ مداخلت اور دباؤ میں لانے سے متعلق سپریم جوڈیشل کونسل کو خط لکھا تھا۔یہ خط اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس محسن اختر کیانی، جسٹس طارق محمود جہانگیری، جسٹس بابر ستار، جسٹس سردار اعجاز اسحٰق خان، جسٹس ارباب محمد طاہر اور جسٹس سمن رفت امتیاز کی جانب سے لکھا گیا۔

ججز کے خط پر سپریم کورٹ نے دو فل کورٹ اجلاس منعقد کیے جن میں اس معاملے پر غور کیا گیا، بعد میں چیف جسٹس پاکستان نے وزیراعظم شہباز شریف سے ملاقات کی۔اس ملاقات کے بعد 30 مارچ کو ایک رکنی انکوائری کمیشن بنانے کی منظوری دے دی گئی تھی، اور جسٹس (ر) تصدق جیلانی کو کمیشن کا سربراہ مقرر کیا گیا تھا۔وفاقی کابینہ کے اجلاس کے بعد جاری اعلامیہ میں کہا گیا تھا کہ اجلاس نے 25 مارچ 2024 کو اسلام آباد ہائی کورٹ کے 6 معزز جج صاحبان کی جانب سے لکھے گئے خط کے مندرجات پر تفصیلی غور کیا۔

اجلاس کو بتایاگیا تھا کہ سپریم کورٹ کے فل کورٹ اعلامیے کے مطابق چیف جسٹس آف پاکستان قاضی فائز عیسیٰ کی وزیر اعظم سے ملاقات میں انکوائری کمیشن کی تشکیل تجویز ہوئی تھی۔تاہم بعد میں جسٹس (ر) تصدق حسین جیلانی نے انکوائری کمیشن کی سربراہی سے معذرت کر لی جس کے بعد چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کے خط کا ازخود نوٹس لیتے ہوئے 7 رکنی لارجر بینچ تشکیل دے دیا تھا۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کے 6 ججز کی جانب سے منظر عام پر آنے والے خط میں کہا گیا تھا کہ ہم بطور اسلام آباد ہائی کورٹ کے ججز سپریم جوڈیشل کونسل سے ایگزیکٹیو ممبران بشمول خفیہ ایجنسیوں کے ججز کے کام میں مداخلت اور ججز کو دباؤ میں لانے سے متعلق رہنمائی چاہتے ہیں۔خط میں مزید کہا گیا کہ یہ معاملہ سپریم کورٹ کے اس فیصلے کے نتیجے میں سامنے آیا جس میں سپریم کورٹ کی جانب سے جسٹس شوکت عزیز صدیقی کی سال 2018 میں برطرفی کو غلط اور غیر قانونی قرار دیا گیا اور کہا کہ جسٹس شوکت عزیز صدیقی کو ریٹائرڈ تصور کیا جائے گا۔

سپریم جوڈیشل کونسل کی جانب سے جسٹس شوکت عزیز صدیقی کو اس وقت برطرف کر دیا گیا تھا جب ان کی جانب سے یہ الزام عائد کیا گیا تھا کہ خفیہ ایجنسی کے اہلکاروں نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں بینچز کی تشکیل اور احتساب عدالت اسلام آباد میں مقدمات کے ٹرائل میں مداخلت کرتے ہیں۔خط کے مطابق ان الزامات کے بعد اس وقت کی وفاقی حکومت اور آرمی چیف کی جانب سے جسٹس شوکت عزیز صدیقی کے خلاف شکایات دائر کی گئی تھیں۔

اس میں کہا گیا کہ سپریم کورٹ کی جانب سے اپنے حالیہ فیصلے میں کہا گیا ہے کہ کسی بھی جج کو سپریم جوڈیشل کونسل کی جانب سے تحقیقات کیے بغیر برطرف نہیں کیا جا سکتا، سپریم کورٹ نے اپنے حالیہ فیصلے میں جسٹس شوکت عزیز صدیقی کی برترفی کو بدنیتی پر مبنی قرار دیا ہے۔خط کے مطابق سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلے سے جسٹس شوکت عزیز صدیقی کے موقف کی جیت ہوئی ہے تاہم غیر قانونی برطرفی کا ازالہ ممکن نہیں، کیا اس وقت واقعی خفیہ ایجنسی کے اہلکار عدالتی معاملات میں مداخلت کر رہے تھی اس کا جواب نہیں مل سکا ہے، اگر خفیہ ایجنسی کے اہلکار واقعی عدلیہ کی آزادی کو مجروح کرنے میں ملوث تھے تو کیسے ان کو احتساب کے کٹہرے میں کھڑا کیا جا سکتا ہے تاکہ مستقبل میں ایسے واقعات رونما نہ ہوں۔

متن کے مطابق سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے بھی میڈیا انٹرویوز میں خفیہ ایجنسی کے اہلکاروں کی عدالتی معاملات میں مداخلت کے الزامات کی تحقیقات کا مطالبہ دہرایا۔خط میں کہا گیا کہ ججز کا موجودہ کوڈ آف کنڈکٹ اس حوالے سے رہنمائی کرنے سے قاصر ہے کہ ججز کی جانب سے خفیہ اداروں کے اہلکاروں کی جانب سے عدلیہ کی آزادی کو مجروح کرنے کا کا کیا ردعمل دیا جائے، ہم سمجھتے ہیں کہ اس بات کی تحقیقات انتہائی اہم ہیں کہ کیا ریاست کی جانب سے عدلیہ کے کام میں مداخلت کی پالیسی اب بھی جاری ہے جس پر خفیہ ایجنسی کے اہلکار عمل درآمد کرواتے ہیں ججز کی جانب سے لکھے گئے خط میں اسلام آباد کی عدلیہ کو خفیہ ایجنسیوں کی جانب سے درپیش دھمکی امیز واقعات کا بھی ذکر کیا گیا۔

خط میں کہا گیا تھا کہ ہم درخواست کرتے ہیں کہ عدالتی امور میں انٹیلی جنس اہلکاروں کی مداخلت اور عدلیہ کی آزادی کو مجروح کرنے کے لیے ججوں کو دھمکانے کے معاملے پر غور کرنے کے لیے ایک جوڈیشل کنونشن بلایا جائے۔اس کے ایک روز بعد مختلف حلقوں سے اس کی تحقیقات کے مطالبات سامنے آئے، جس کے پیشِ نظر چیف جسٹس آف پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے سپریم کورٹ کے ججز کا فل کورٹ اجلاس طلب کیا۔28 مارچ کو وزیر اعظم شہباز شریف نے چیف جسٹس عیسیٰ سے ملاقات کی، جہاں دونوں نے کابینہ کی منظوری کے بعد عدالتی امور میں مداخلت کے خدشات کی تحقیقات کے لیے کمیشن بنانے کا فیصلہ کیا۔

اسلام آباد میں شائع ہونے والی مزید خبریں