سستی ،معیاری ادویات کی فراہمی، حکومت فارما انڈسٹری کیساتھ ملکر پالیسی تیار کرے، چیئرمین پی پی ایم اے

ادویات سازی کا شعبہ پاکستان کے صحت کی دیکھ بھال کے نظام میں ایک اہم کردار ادا کرتا ہے، میاں خالد مصباح الرحمن

منگل 30 اپریل 2024 22:52

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 30 اپریل2024ء) چیئرمین پاکستان فارماسیوٹیکل مینوفیکچررز ایسوسی ایشن کے میاں خالد مصباح الرحمان نے ملک میں ادویات کی قلت کے مسائل کو حل کرنے کے لیے فوری کارروائی کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ حکومت کی جانب سے غیر ضروری ادویات کی ڈی ریگولیشن اور قیمتوں میں کمی سے کچھ مسائل بتدریج حل ہو سکتے ہیں، لیکن ضروری ادویات کا مسئلہ برقرار رہے گا۔

نجی ٹی وی پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے نشاندہی کی کہ حکومت نے ضروری ادویات کی قیمتوں میں سالانہ اضافے کو 7 فیصد تک محدود کر دیا ہے، جو کہ حالیہ برسوں میں نمایاں افراط زر اور کرنسی کی قدر میں کمی کے پیش نظر کم ہے۔مصباح الرحمان نے قیمتوں کے تعین کی زیادہ لچکدار ایسی پالیسی کی ضرورت پر زور دیا جو معاشی حقائق کے مطابق ہو سکے۔

(جاری ہے)

انہوں نے قیمتوں کے ضوابط میں تفاوت کو اجاگر کرتے ہوئے کہا کہ کوئی دوسری شے ایسی نہیں ہے جس کی قیمت میں صرف 7 فیصد اضافہ ہوا ہو۔ کچھ اشیا کی قیمتوں میں 70 اور 80 فیصد تک اضافہ دیکھا گیا ہے۔انہوں نے پاکستان کی قیمتوں کے تعین کی پالیسیوں پر نظرثانی کا مطالبہ کیا تاکہ یہ یقینی بنایا جا سکے کہ وہ منصفانہ ہیں اور ملک کو درپیش معاشی چیلنجوں کی عکاسی کرتی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان کی ضروری ادویات کی فہرست میں 494 ادویات ایسی ہیں جو کہ خطے میں سب سے بڑی ہے۔ اس فہرست میں بھارت کی 384، بنگلہ دیش کی 120 اور سری لنکا کی صرف 60 ادویات شامل ہیں۔ریگولیٹری مسائل کے بارے میں بات کرتے ہوئے مصباح الرحمان نے 1976کے فرسودہ ڈرگ ایکٹ پر تشویش کا اظہار کیاجس پر فارماسیوٹیکل انڈسٹری میں رائج جدید معیارات اور طریقوں کے مطابق نظر ثانی نہیں کی گئی ہے۔

انہوں نے ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی کی اس ضرورت کو اجاگر کیا کہ اس کے پاس ریگولیٹری چیلنجوں سے مثر طریقے سے نمٹنے کے لیے مناسب عملہ اور آلات ہونے چاہئیں۔مصباح الرحمان نے زور دیتے ہوئے کہا کہ اگر قانون نے ڈریپ کو خود مختاری دی ہے تو لوگوں کو بھی اس خودمختاری کا استعمال کرنے کی ضرورت ہے۔انہوں نے ڈائریکٹر کی تقرریوں میں تسلسل کے فقدان کی وجہ سے ریگولیٹری اتھارٹی کو درپیش چیلنجوں کی نشاندہی بھی کی۔

مصباح الرحمان نے مینوفیکچرنگ کی معمولی غلطیوں کے بارے میں موجودہ نقطہ نظر پر بھی تنقید کرتے ہوئے کہا کہ جہاں بین الاقوامی معیارات انتباہ اور تفتیش پر توجہ مرکوز کرتے ہیں، وہیں پاکستان کے قوانین اکثر مجرمانہ قانونی چارہ جوئی کا باعث بنتے ہیں، اور یہ نہیں دیکھا جاتا کہ ارادہ کیا تھا۔انہوں نے کوالٹی کنٹرول کے مسائل پر مزید نفیس نقطہ نظر کی ضرورت پر زور دیا تاکہ دوا ساز کمپنیوں کو بے جا جرمانے سے بچایا جا سکے۔

مصباح الرحمان نے اس امید کا اظہار کیا کہ غیر ضروری ادویات کی حالیہ ڈی ریگولیشن سے مسابقت میں اضافے کے ذریعے کچھ غیر ضروری ادویات کی دستیابی اور قیمتوں میں بہتری آئے گی۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ پاکستان کے فارماسیوٹیکل سیکٹر کو درپیش بنیادی مسائل کو حل کرنے کے لیے مزید جامع اصلاحات کی ضرورت ہے۔انہوں نے حکومت پر زور دیا کہ وہ صنعت کے اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ مل کر ایسی پالیسیاں تیار کرے جو ترقی اور پائیداری کو فروغ دیں، اور مریضوں کو سستی اور اعلی معیار کی ادویات تک رسائی کو یقینی بنائی جاسکے۔مصباح الرحمان نے بامعنی تبدیلی کے حصول کیلئے تمام متعلقہ فریقوں کو شامل کرتے ہوئے اصلاحات کیلئے ایک باہمی تعاون کی اہمیت پر زور دیا۔

اسلام آباد میں شائع ہونے والی مزید خبریں