دنیا میں پانچ سال سے کم عمربچوں کی موت کی بڑی وجہ قبل ازوقت پیدائش ہے، عالمی ادارہ صحت

پیر 15 جنوری 2024 22:47

جڑانوالہ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 15 جنوری2024ء) عالمی ادارہ صحت نے کہا ہے کہ 15 ملین بچے ہر سال قبل از وقت پیدا ہوتے ہیں، دنیا بھر میں پانچ سال سے کم عمر بچوں کی موت کی سب سے بڑی وجہ قبل از وقت پیدائش ہے۔ عالمی ادارہ صحت سے جاری تفصیلات کے مطابق عالمی سطح پر 15 ملین بچے قبل از وقت پیدا ہو جاتے ہیں، اس مناسبت سے پہلا بین الاقوامی بیداری دن یورپی والدین کی تنظیموں نے 2008 میں منایا جسے 2011 سے عالمی دن کے طور پر منایا جاتا ہے۔

ادارے کا کہنا ہے کہ والدین کے گروپ، خاندان، صحت کے پیشہ ور افراد، سیاستدان، ہسپتال، تنظیمیں اور قبل از وقت پیدائش مہم میں شامل دیگر سٹیک ہولڈرز اس دن کو میڈیا مہموں، مقامی تقریبات اور مقامی، علاقائی، قومی یا بین الاقوامی سطح پر کی جانے والی دیگر سرگرمیوں کے ساتھ مناتے ہیں تاکہ عوام میں شعور بیدار کیا جا سکے۔

(جاری ہے)

پاکستان میں ہر سال لگ بھگ ساڑھے سات لاکھ بچے مقررہ وقت سے پہلے پیدا ہوتے ہیں جس کی وجہ سے ان کی زندگیوں کو لاحق خطرات بڑھ جاتے ہیں۔

قبل از وقت بچوں کی پیدائش کی شرح کے حوالے سے پاکستان 184 ممالک کی فہرست میں چوتھے نمبر پر ہے،اس کی شرح میں کمی سے بچوں کی اموات میں نمایاں کمی ممکن ہے۔ انھوں نے کہا کہ مقررہ وقت سے پہلے پیدا ہونے والے بچوں کی زندگی کو بچانے کے لیے کم خرچ اور آزمودہ طریقے موجود ہیں۔ پاکستان میں بچوں کی قبل از وقت پیدائش ایک تشویشناک مسئلہ ہے جس کی بڑی وجوہات میں غربت اور مناسب طبی سہولتوں کا فقدان شامل ہے۔

حمل کے دوران خواتین اپنا طبی معائنہ وقت پر کروائیں تو بچوں کی قبل از پیدائش کو روکنے میں مدد ملے گی، حمل کے دوارن خواتین کو کم از کم تین بار کسی تربیت یافتہ طبی ماہر کے پاس معائنے کے لیے ضرور جانا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ کئی ایسے طریقے اور ادویات دستیاب ہیں جن کی مدد سے قبل از وقت پیدائش کی شرح میں کمی لائی جا سکتی ہے، ترقی پذیر ملکوں میں پانچ سال سے کم عمر کے بچوں کی اموات کی وجہ قبل از وقت پیدائش کے باعث پیدا ہونے والی طبی پیچیدگیاں ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان میں ماں اور بچے کی صحت کے حوالے سے تمام بڑے سرکاری ہسپتالوں کے علاوہ بنیادی صحت کے مراکز میں خصوصی انتظامات کیے جا رہے ہیں تاکہ ماں اور نومولود بچوں کی زندگیوں کو بچایا جا سکے۔

متعلقہ عنوان :

جڑانوالہ میں شائع ہونے والی مزید خبریں