سندھ حکومت ہوم بیسڈ ورکرز ایکٹ کے اصول و ضابطہ کا جلد از جلد نوٹیفیکشن جاری کرے

گھر مزدورو ں کو سماجی تحفظ کے اداروں سے رجسٹرڈکرنے کے لیے قانون سازی کے عمل کو تیزکیا جائے

پیر 21 اکتوبر 2019 19:27

کراچی۔ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 21 اکتوبر2019ء) سندھ کی طرح پورے ملک میں ہوم بیسڈ کا قانون پاس کیا جائے اور اس کے اطلاق کے لیے ٹھوس اقدامات کیے جائیں‘ پاکستان کے ایک کڑور بیس لاکھ سے زائد گھر مزدور مطالبہ کرتے ہیں کہ انہیں بھی سماجی تحفظ ، پینشن اور لیبر قوانین کے تحت حقوق دیئے جائیں۔ ان خیالات کا اظہار مقررین نے انٹرنیشنل ہوم بیسڈ ورکرز ڈے کے موقع پر ہوم بیسڈ وومن ورکرز فیڈریشن کے زیراہتمام نکالی جانے والی ریلی میں کیا۔

یہ ریلی فورہ چوک سے کراچی پریس کلب تک نکالی گئی جس کی قیادت فیڈریشن کی جنرل سیکرٹری زہرا خان کر رہی تھیں۔ ریلی میں مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے گھر مزدور بالخصوص گھر مزدور عورتوںنے پر جوش انداز میں شرکت کی اور نعرے بھی لگائے۔

(جاری ہے)

ریلی سے خطاب کرتے ہوئے ہوم بیسڈ وومن ورکرز فیڈریشن کی جنرل سیکرٹری زہرا خان نے کہا کہ ملک بھر کی گھر مزدور خواتین خصوصاً سندھ کی گھر مزدور عورتیں نے 10 سال کی انتھک جدوجہد کے نتیجے میں اپنی قانونی حیثیت کو تسلیم کروایا ہے جو کہ پاکستان ہی کے لیے نہیں بلکہ خطے کی محنت کش خواتین کے لیے بھی تاریخی واقعہ ہے۔

انہوں نے کہا کہ گھر مزدورعورتوں کی نمائندہ فیڈریشن نے نہ صرف اپنے حقوق کے لیے آواز بلند کی بلکہ مزدوروں کے خلاف اٹھنے والی ہر سازش کے خلاف ہر اول دستے کا کردار ادا کیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ پچھلے تین دہائیوں سے محنت کش عورتوں، جن میں اوکاڑہ کی کسان عورتیں، لیڈی ہیلتھ ورکر، لیڈی ٹیچرز اور نرسیں اور ہوم بیسڈ خواتین نے تاریخ ساز جدوجہد کرکے پاکستان کی مزدور تحریک کو مضبوط کیا ہے۔

جو کہ نہ صرف خود کو بدل رہی ہیں بلکہ اس سماج میں موجود خیالات کو بھی تبدیل کرنے کا باعث بن رہی ہیں۔یونائیٹڈ ہوم بیسڈ گارمنٹس ورکرز یونین کی جنرل سیکرٹری سائرہ فیروز نے مظاہرین سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ سندھ اسمبلی کے مشکور ہیں کہ انہوں نے ہوم بیسڈ ووکرز ایکٹ متفقہ طور پر پاس کیا اور لاکھوں گمنام محنت کرنے والے ہاتھیوں کو شناخت اور توقیر دی لیکن بدقسمتی یہ ہے کہ ایک سال گزرنے کے باوجود ابھی تک قانون کی روح سے قوائدو ضابط (Rules) ناوضع کئے جانے کی بناء پر قانون کا اطلاق نا ممکن ہو گیا ہے۔

گھر مزدور محنت کشوں کو حقیقی خوشی جب ملے گی جب قانون کا عملی اطلاق شروع ہو جائے گا۔نیشنل ٹریڈ یونین فیڈریشن کے جنرل سیکرٹری ناصر منصور نے ہوم بیسڈ خواتین محنت کشوں کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ گھر مزدوروں نے اپنی تاریخی جدوجہد سے انہونی کو ہونی کر دیکھایا اور آج صورت حال یہ ہے کہ فیکٹریوں کے مزدور اپنی تنظیم سازی کے لیے گھر مزدور رہنماو ٴں سے رہنمائی حاصل کرتے ہیں۔

ہمارے لیے یہ باعث فخر ہے کہ گھر مزدوروںکی بڑی تعداد ٹریڈ یونین کا حصہ بن رہی ہیں اور سرمایہ کے جبر کے خلاف توانا آواز بن کر ابھری ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ مزدوروں کی مشترکہ جدوجہد ہی ظلم اور استحصال کو ختم کر سکتی ہے۔ریلی کے اختتام پر مطالبہ کیا گیا کہ سندھ حکومت ہوم بیسڈ ورکرز ایکٹ کے اصول و ضابط کاجلد از جلد نوٹیفیکشن جاری کرے اور اس پر عمل درآمد کرے۔

سندھ کی طرح پاکستان کے دیگر صوبوں میں بھی گھر مزدور وں ورکر تسلیم کیا جائے۔ گھر مزدوروں کو سماجی تحفظ کے اداروں سے رجسٹرڈ کرنے کے لیے قانون سازی کے عمل کو تیز کیا جائے۔ گھر مزدرورں کی اجرتوں میں اضافہ کیا جائے۔ چوڑی کی صنعت سے وابستہ لاکھوں مزدوروں کی حالیہ جاری کردہ سرکاری نوٹیفیکشن کے مطابق ا جرتوں کی ادائیگی کی جائے۔ سندھ مینمم ویج بورڈ چوڑی کی طرح دیگر ہوم بیسڈ شعبے کے مزدوروں کی اجرت کا تعین کرے۔

حکومت پاکستان آئی ایل او کنونشن 177 کی جلد از جلد توثیق کرے۔ہوم بیسڈ ورکرز کو رجسٹر کیاجائے اور ٹھیکیدار وں کو رجسٹریشن کے دائرے میںلائے جائے۔ سپلائی چین میں کام کرنے والے تمام مزدوروں کو قانون کے دائرے میں لاتے ہوئے انہیں یونین سازی کا حق دیا جائے۔ کام کی جگہوں میں خواتین کو ہراسا ںکرنے کے قانون پر سختی سے عمل درآمد کروانے کے لیے ٹھوس اقدامات کئے جائیں۔

حکومت سندھ گھر مزدوروں کی فلاح و بہبور کے لیے سالانہ بجٹ میں رقم مختض کرے۔ریلی سے خطاب کرنے والوں یگر ساتھیوں میں ہوم بیسڈ وومن ورکرز فیڈریشن کی رہنما زاہدہ مختار،پیپلز لیبر بیوروسندھ کے صدر جناب حبیب الدین جنیدی، یونائیٹڈایچ بی ورکرزیونین کی رقیہ محمد حنیف ، ہوم بیسڈ فیڈریشن سندھ کی انفارمیشن سیکرٹری شبنم اعظیم ، ہوم بیسڈ شعبے سے تعلق رکھنے والی دیگر خواتین میں میمیو نہ اور یگر شامل تھے۔

کراچی میں شائع ہونے والی مزید خبریں