ؔ پاکستانی تاجر برادری ماریشس کے ذریعے پورے افریقا تک ڈیوٹی، کوٹہ فری رسائی سے فائدہ اٹھائے، ہائی کمشنر

ًپاکستان اور ماریشس باہمی سیاحت کو فروغ دے کر زبردست فوائد حاصل کرسکتے ہیں، افتخار شیخ

پیر 13 مئی 2024 18:45

{(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 13 مئی2024ء) ماریشس کے ہائی کمشنر راشد علی سوبدر نے کراچی کی تاجر برادری پر زور دیا ہے کہ وہ ماریشس میں دستیاب مواقعوں سے فائدہ اٹھائیں جو کہ افریقی مارکیٹ میں 54 ممالک تک رسائی کے مرکز یا گیٹ وے کے طور پر استعمال میں لایا جاسکتا ہے جو کاروبار کرنے میں آسانی کے انڈیکس میں 13ویں نمبر پر ہے۔کراچی کی تاجر برادری یہاں باآسانی سرمایہ کاری کر سکتی ہے اور ماریشس میں اپنے پیداواری یونٹ قائم کر سکتی ہے نیز اپنی افرادی قوت لانے کی آزادی سے بھی لطف اندوز ہو سکتی ہے جس کی ماریشس میں اجازت ہے اور وہ براعظمی آزاد تجارتی معاہدے کے تحت افریقا کے 54 ممالک تک ڈیوٹی فری اور کوٹہ فری رسائی حاصل کر سکتے ہیں۔

ان خیالات کا اظہار انہوں نے پیر کو کراچی چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری (کے سی سی آئی) کے دورے کے موقع پر اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔

(جاری ہے)

اجلاس میں ڈپٹی ہائی کمشنر ایڈم کوڈورتھ، کراچی میں ماریشس کے اعزازی قونصل جنرل سہیل یاسین سلیمان، کے سی سی آئی کے صدر افتخار احمد شیخ، سینئر نائب صدر الطاف اے غفار، نائب صدر تنویر احمد باری، سابق صدور مجید عزیز اور جنید اسماعیل ماکڈا، چیئرمین ڈپلومیٹک مشنز اینڈ ٹریڈ ڈیلیگیشنز سب کمیٹی فاروق افضل اور کے سی سی آئی کی منیجنگ کمیٹی کے اراکین نے شرکت کی۔

ہائی کمشنر نے نشاندہی کی کہ ماریشس کے راستے افریقا کے 54 ممالک تک رسائی بہت اہم ہے کیونکہ عالمی بینک کی رپورٹ کے مطابق 2040 تک افریقی براعظم کی آبادی بھارت اور چین کی مجموعی آبادی کو پیچھے چھوڑ کر 4 ارب سے زائد تک پہنچ جائے گی۔زمینی، معدنی وسائل، زرعی، کاروباری اور سرمایہ کاری کے لحاظ سے افریقا آخری سرزمین ہے جو بے پناہ مواقع پیش کرتا ہے۔

ماریشس قانون کی سخت حکمرانی، ثالثی اور گڈ گورننس فراہم کرتا ہے جبکہ یہ دنیا کے پرامن ممالک میں سے ایک ہے جو امن کے لحاظ سے دنیا کے 200 پرامن ممالک کی فہرست میں 20 ویں نمبر پر ہے۔ماریشس کی معیشت بہت اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کر رہی ہے اور ہمارے پاس زرمبادلہ پر کوئی پابندی نہیں۔آپ کی سرمایہ کاری محفوظ ہے اور آپ کسی بھی وقت رقم منتقل کر سکتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ماریشس کے تقریباً پانچ سے چھ ممالک کے ساتھ انتہائی خصوصی تعلقات ہیں اور پاکستان ان میں سے ایک ہے۔جب ہم نے 1970 میں پاکستان میں اپنا مشن کھولا تو ماریشس کے دنیا بھر میں صرف 8 مشن تھے اور پاکستان ان میں سے ایک تھا۔انہوں نے بتایا کہ ماریشس جو کہ افریقا کا بہترین حکومتی ملک ہے وہ بھی اپنے پاسپورٹ ان پاکستانیوں کو دیتا ہے جو کچھ شرائط پر پورا اترتے ہیں۔

کوئی بھی شخص گھر یا ولا خرید کر یا کسی بھی شعبے میں سرمایہ کاری کرکی350,000 ڈالر کی سرمایہ کاری لاتا ہے تو وہ اور اس کاخاندان ماریشیا کا پاسپورٹ حاصل کرنے کا اہل ہو گا۔انہوں نے کہا کہ افریقا کا 40 فیصد حصہ اب بھی بجلی سے محروم ہے جو پاکستانی سرمایہ کاروں کے لیے بہت اچھا موقع ہے جو افریقا میں سولر فارمز کے قیام کے امکانات کو دیکھ سکتے ہیں۔

انہوں نے صدر سی سی آئی کی جانب سے سیاحتی شعبے میں مواقع تلاش کرنے کی تجویز کے جواب میں کہا کہ اگرچہ ماریشس کی آبادی 12 لاکھ ہے لیکن یہاں ہر سال 20 لاکھ سیاح آتے ہیں کیونکہ اس جزیرے نے مہمان نوازی کا ایک بہت ہی خوبصورت شعبہ قائم کیا ہے۔ہم نے صرف کروز جہازوں کے لیے ایک بندرگاہ بنائی ہے اور توقع ہے کہ ہر سال 50 کروز جہاز اس بندرگاہ پر پہنچیں گے۔

قبل ازیں صدر کے سی سی آئی افتخار احمد شیخ نے ماریشس کے ہائی کمشنر کا خیرمقدم کرتے ہوئے بتایا کہ تجارت کے وسیع امکانات کے باوجود جولائی تا مارچ مالی سال 2024 کے دوران ماریشس کو پاکستان کی برآمدات تقریباً 1 کروڑ 60 لاکھ ڈالر کی معمولی سطح پر رہیں لہٰذا دونوں ممالک کے درمیان معمولی تجارت کو بہتر بنانے کے لیے غیر معمولی کوششیں کرنا واقعی بہت اہم ہے۔

مالی سال 2023 میں افریقن مارکیٹ میں پاکستان کی برآمدات 1.31 ارب ڈالر رہی جو پاکستان کی مجموعی برآمدات کا صرف 4.72 فیصد ہے جبکہ افریقا کی توانائی اور قدرتی وسائل کی بے پناہ اقتصادی صلاحیت اور اس کی آبادی کو دیکھتے ہوئے نمایاں طور پر کم ہے جو کہ عالمی آبادی کا تقریباً پانچواں حصہ ہے۔اس لیے پاکستان کی لُک افریقا پالیسی تجارت کو تیز کرنے اور اقتصادی انضمام کو آگے بڑھانے میں مدد دے سکتی ہے۔

انہوں نے تجارتی رکاوٹوں کو کم کرنے کی ضرورت پر بھی زور دیا جس سے کسٹم کے طریقہ کار کو آسان بنایا جائے تاکہ کاروبار کرنے میں آسانی پیدا ہو اور ایس ایم ایز کو سہولت مل سکے جو پاکستان اور ماریشس کے درمیان تجارت کو بڑھانے کے لیے ضروری ہے۔افتخار شیخ نے مزید کہا کہ ماریشس پاکستان کے جنوبی اور مشرقی افریقا میں داخلے کے لیے گیٹ وے کا کام کر سکتا ہے۔

پاکستان کو اپنے ٹیکسٹائل اور ملبوسات کے شعبے کو دوبارہ متعارف کرانے کی ضرورت ہے نیز ویلیو ایڈیشن پر توجہ مرکوز کی جائے تاکہ گہرے کاروباری روابط پیدا ہوں اور اس خطے میں برآمدات کو فروغ دینے کے مواقع تلاش کیے جاسکیں۔سیاحت ماریشس کی معیشت کے اہم ستونوں میں سے ایک ہے اور ملک کے لیے اس کی برآمدی آمدنی کا بڑا ذریعہ ہے۔پاکستان کے سیاحتی شعبے میں بھی مقامی اور بین الاقوامی سیاحوں کے لیے بے شمار پرکشش مقامات کی وجہ سے انہیں متوجہ کرنے کی زبردست صلاحیت موجود ہے۔

انہوں نے تجویز پیش کی کہ دونوں ممالک ایک دوسرے کے تجربات سے سیکھ سکتے ہیں اور ٹیکنالوجی سے مزین سیاحتی اداروں کو فروغ دینے اور دونوں ممالک کے درمیان سیاحت کی ترقی میں کمیونٹی کی شرکت کی حوصلہ افزائی کے لیے تعاون کر سکتے ہیں۔انہوں نے بتایا کہ زراعت اور لائیو اسٹاک کے لیے پاکستان کی سرزمین بہت موزوں ہے اور متنوع ماحولیاتی زونز، کارپوریٹ فارمنگ کے لیے بے پناہ مراعات پیش کرتے ہیں نیز ایس آئی ایف سی کے تحت متاثر کن پیداوار اور سرمایہ کاری کے مواقع فراہم کرتے ہیں۔

تجارتی حجم کو بڑھانے کے لیے زرعی خوراک کی برآمدات کو فروغ دینے کے لیے دونوں ممالک زرعی مہارت کو بانٹ کر اور کارپوریٹ فارمنگ وینچرز کو آگے بڑھا کر باہمی طور پر فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ ویزا قوانین کو آزاد کرنے سے ثقافتی تبادلے کی حوصلہ افزائی سمیت سفر کو آسان بنا سکتی ہے اور دونوں ممالک میں لوگوں اور کاروباری اداروں کے درمیان روابط کو مضبوط بناسکتی ہے۔#

کراچی میں شائع ہونے والی مزید خبریں