صدر ابراہیم رئیسی کامشہد سے تہران تک کا سیاسی سفر‘سیاہ عمامہ ان کے آل رسولﷺ کی نشاندہی کرتا ہے

ان کے والد ایک بڑے عالم تھے ان کی وفات اس وقت ہوئی جب ابراہیم فقط پانچ برس کے تھے‘وہ ایران کی عدلیہ کے سربراہ سمیت بہت سارے اہم عہدں پر فائزرہے‘ انہیں اسلامی قوانین اور فقہ پر عبور حاصل ہے اس کے علاوہ انہوں نے مغربی قانونی نظام کو بھی پڑھا.رپورٹ

Mian Nadeem میاں محمد ندیم منگل 23 اپریل 2024 00:13

صدر ابراہیم رئیسی کامشہد سے تہران تک کا سیاسی سفر‘سیاہ عمامہ ان کے آل رسولﷺ کی نشاندہی کرتا ہے
لاہور(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔23 اپریل۔2024 ) ایرانی صدر ابراہیم رئیسی سال 2021 میں صدر منتخب ہوئے صدارت کا منصب سنبھالنے کے بعد یہ ان کا پاکستان کا پہلا دورہ ہے جسے خطے کی سیاست پر نظر رکھنے والے ماہرین ایک اہم دورہ قرار دے رہے ہیں صدر رئیسی آج مختصر دورے پر پنجاب کے صوبائی دارالحکومت لاہور پہنچیں گے جس کے بعد معززمہمان کراچی روانہ ہوجائیں گے ایرانی صدر پاکستان کا دورہ ایک ایسے وقت میں کر رہے ہیں جب ایران اسرائیل تنازع عروج پر ہے.

(جاری ہے)

ایران اسرائیل تنازعے کے پس منظر کے ساتھ ساتھ پاکستان کے موجودہ سیاسی اور معاشی حالات کے تناظر میں بھی یہ دورہ خصوصی اہمیت کا حامل ہے ابراہیم رئیسی 1960 میں ایران کے دوسرے بڑے شہر مشہد میں پیدا ہوئے جہاں شیعہ مسلمانوں کے مقدس ترین مزارات میں سے ایک واقع ہے ان کے والد ایک بڑے عالم تھے اور ان کی وفات اس وقت ہوئی جب ابراہیم فقط پانچ برس کے تھے روایت کے مطابق سیاہ عمامہ ان کے آل رسولﷺ ہونے کی نشاندہی کرتا ہے انہوں نے اپنے والد کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے 15 سال کی عمر میں مقدس شہر قم میں ایک مدرسے میں حصول تعلیم کی غرض سے جانا شروع کیا وہ ایک انتہائی ذہین طالب علم کے طور پر جانے جاتے تھے.

ایک طالب علم کے طور پر انہوں نے مغربی حمایت یافتہ شاہ ایران کے خلاف مظاہروں میں حصہ لیا شاہ ایران 1979 میں آیت اللہ روح اللہ خمینی کی قیادت میں اسلامی انقلاب کے بعد معزول ہوکر ملک سے فرارہوگئے. اسلامی انقلاب کے بعد ابراہیم رئیسی نے عدلیہ میں شمولیت اختیار کی اور کئی شہروں میں پراسیکیوٹر کی حیثیت سے خدمات سرانجام دیں انہیں اسلامی قوانین اور فقہ پر عبور حاصل ہے اس کے علاوہ انہوں نے مغربی قانونی نظام کو بھی پڑھا.

انہیں آیت اللہ خامنہ ای سے دینی وسیاسی تربیت حاصل کرنے کا موقع بھی ملا آیت اللہ حامنہ ای 1981 میں ایران کے صدر بنے ابراہیم رئیسی صرف25سال کی عمر میں تہران کے ڈپٹی پراسیکیوٹر بنے اس عہدے پر رہتے ہوئے انہوں نے ان چار ججوں میں سے ایک کی حیثیت سے خدمات انجام دیں جو 1988 میں قائم اسلامی انقلاب کے ٹربیونلز کا حصہ تھے ان پر بطور جج بڑے پیمانے پرموت کی سزائیں دینے کے الزامات لگتے رہے جبکہ ان کا کہنا تھا کہ ان کی جانب سے دی جانے والی سزائیں رہبر اعلیٰ آیت اللہ خمینی کے فتاوی کی روح سے جائزتھیں ابراہیم رئیسی 2014 میں ایران کے پراسیکیوٹر جنرل مقرر ہونے سے پہلے تہران کے پراسیکیوٹر، پھر سٹیٹ انسپکٹوریٹ آرگنائزیشن کے سربراہ اور عدلیہ کے پہلے نائب سربراہ کے طور پر خدمات انجام دیتے رہے ہیں.

سال2016میں آیت اللہ خامنہ ای نے انہیں ایران کی سب سے اہم مذہبی تنظیم ”آستان قدس رضوی“ کا نگہبان نامزد کردیایہ تنظیم مشہد میں آٹھویں امام حضرت امام رضاعلیہ اسلام کے مزار کے ساتھ ساتھ اس سے وابستہ تمام مختلف فلاحی اداروں اور تنظیموں کا انتظام سنبھالتی ہے 2017 میں رئیسی صدارت کے امیدوار بنے 2017 کے انتخابات میں حسن روحانی نے انتخابات کے پہلے مرحلے میں 57 فیصد ووٹ حاصل کر کے بھاری اکثریت سے دوسری مرتبہ کامیابی حاصل کر لی.

ابراہیم رئیسی کو”کرپشن مخالف جنگجو“ کہا جاتا رہا ہے 2017 کے الیکشن میں 38 فیصد کے ساتھ دوسرے نمبر پر آئے تھے 2019 میں آیت اللہ خامنہ ای نے انہیں عدلیہ کے سربراہ (چیف جسٹس آف ایران)کے عہدے پر نامزد کردیا اگلے ہی ہفتے وہ ماہرین کی اسمبلی کے ڈپٹی چیئرمین کے طور پر بھی منتخب ہوئے جو کہ 88 رکنی علما کا ادارہ ہے جو اگلے سپریم لیڈر کے انتخاب کے لیے ذمہ دار ہے.

بحیثیت عدلیہ کے سربراہ رئیسی نے اصلاحات نافذ کیں جس کی وجہ سے ملک میں منشیات سے متعلق جرائم کے لیے سزائے موت پانے اور پھانسی کی سزا پانے والوں کی تعداد میں کمی آئی عدلیہ نے سکیورٹی سروسز کے ساتھ مل کر دوہری شہریت رکھنے والے ایرانیوں یا غیر ملکی مستقل رہائئیشوں کے خلاف کریک ڈاﺅن جاری رکھا جو ایران کی اسلامی حکومت کے خلاف تہران دشمن طاقتوں کے آلہ کار کے طور پر کام کرتے تھے. صدررئیسی اپنی نجی نجی زندگی کو منظرعام پر لانا پسند نہیں کرتے اس لیے ان کے اہل خانہ کے بارے میں بہت کم معلومات دستیاب ہیں سوائے اس کے کہ ان کی اہلیہ جمیلہ ابراہیم تہران کی شاہد بہشتی یونیورسٹی میں استاد ہیں وہ مشہد کی جامع مسجد کے امام آیت اللہ احمد علم الہدیٰ کی صاحبزادی ہیں.

لاہور میں شائع ہونے والی مزید خبریں