پنجاب حکومت نے مزید مشاورت کرنے کیلئے ہتک عزت بل کی اسمبلی سے منظوری اتوارتک موخرکردی

بدھ 15 مئی 2024 14:44

پنجاب حکومت نے مزید مشاورت کرنے کیلئے ہتک عزت بل کی اسمبلی سے منظوری اتوارتک موخرکردی
لاہور(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 15 مئی2024ء) پنجاب حکومت نے مزید مشاورت کرنے کیلئے ہتک عزت بل کی اسمبلی سے منظوری اتوار تک موخر کر دی جبکہ صوبائی وزیر وزیر اطلاعات عظمی بخاری نے کہا ہے کہ مریم نواز کی ہدایت پرمشاورت کے لئے بل کی منظوری کو موخر کیا گیا ہے، ہم سوشل میڈیا سے ڈرے ہوئے نہیں لیکن کسی کو جھوٹے الزام لگا کر پگڑیاں اچھالنے کی اجازت نہیں دے سکتے، بل لانے کی بنیادی وجہ وہ لوگ ہیں جو صرف ڈالر کمانے کے لئے کردار کشی اورجھوٹاپراپیگنڈا کر کے لوگوں کی پگڑیاں اچھالتے ہیں اس لئے ہمیشہ سے اس جیسے نئے قانون کی ضرورت تھی،اس قانون کے تحت ٹربیونل 180 دن میں فیصلہ کرنے کا پابند ہو گا اس میں پولیس، گرفتاری یا سزا نہیں ہو گی بلکہ 30 لاکھ روپے تک مالی پینلٹی ہو گی، یہ صرف سیاستدانوں نہیں بلکہ ہرشہری کے لئے ہو گا،یہ قانون صرف پانچ سات ایجنڈا بیس لوگوں کا مسئلہ ہے ۔

(جاری ہے)

ڈائریکٹوریٹ جنرل پبلک ریلیشنز پنجاب میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے عظمیٰ بخاری نے کہا کہ کہا جارہا ہے آزادی اظہار رائے پر پابندی لگنے لگی ہے،ایک قانون پنجاب اسمبلی میں پیش کیا گیا ہے ،جس پر کہا گیا کہ یہ ایک کالا قانون ہے ،یہ بل کیوں لایا جارہا ہے،ڈالر کمانے کے لئے لوگوں کی پگڑیاں اچھالی اور چہک چہک کر جھوٹ بولا جاتاہے ،نیا ڈیفیمیشن لا ء آنا چاہیے،پراناقانون ایک نوٹس سے آگے نہیں جاسکا،شہباز شریف پر ایک الزام لگایا گیا تھا کہ انہوں نے کہا تھا کہ 10ارب لے لو کیس سے پیچھے ہوجائو،خواجہ آصف پر بھی الزام لگایا گیا ۔

انہوں نے کہا کہ نئے قانون میں پولیس ،جیل گرفتاری کا کوئی کردار نہیں ،یہ ایک سول سوٹ ہے جس میں درخواست گزار ایک ٹریبونل کے ذریعے اپنی گزارش لے کر جائے گا،ٹریبونل کا جج نوٹس جاری کرے گا،جہاں ٹویٹ ، پوسٹ کی گئی ہوگی اس پر نوٹس ہوگا،ایک ہی پیشی پر فیصلہ ہوگا،ٹریبونل کے جج صاحب کہیں گے کہ اکیس دن میں اپنی مرضی کی تین پیشیوں کی تاریخیں لے لیں،اگر کوئی دفاع کرنا چاہتا ہے تو وہ کہہ سکتا ہے میں دفاع کرنا چاہتا ہوں،اگر وہ ثابت ہوجاتی ہے تو تین ملین ڈگری جاری ہوگی اس کو ہرجانہ دینا ہوگا،سات دن اس کو دیئے جائے گے کہ اگر وہ کریمینل سائیڈ پر جانا چاہتا ہے تو جا سکتا ہے،180 دنوں میں کیس کو مکمل کرنا ہوگا۔

عظمیٰ بخاری نے کہا کہ ملک میں مروجہ قوانین میں ٹریبونل کے قوانین ہیں،ہائیکورٹ کے جج کو ٹریبونل کا درجہ دیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ وزیر اعلی پنجاب کی ہدایت ہے کہ اتوار تک ہم اس کی منظوری روک رہے ہیں،اتوار تک صحافتی تنظیمیں ہمیں شق وار لکھ کر دیں گی جس پر اعتراض ہو اس پر ہم گفتگو کرسکتے ہیں،ہم اس کو سیاست کے لئے استعمال نہیں کرنا چاہتے،ہم لوگوں کی پگڑیاں نہیں اچھالنا چاہتے،ہمارے ملک میں ایسی بہت سے خبریں چلتی ہیں لیکن باہر کے ممالک میں نہیں چلتی کیونکہ وہاں پر قوانین مضبوط ہیں،جن کا کام ہی یہی ہے کہ ڈالر کمانے کے لئے چہک چہک کر جھوٹ بولنا ہے ان کو اس قانون سے مسائل ہیں،عام صحافیوں کے یہ مسائل نہیں ہوسکتے ورکنگ صحافی کو اس سے کوئی مسئلہ نہیں ہوگا،جو جھوٹ بول رہا ہے ایجنڈا بیس ہے اس کو اس سے مسئلہ ہے،یہ عام شہری کا قانون ہے جس کو بلیک میل کیا جاتا ہے ،وزیر اعلی نے کہا ہے کہ ہم تمام صحافی اداروں کے ساتھ بیٹھ کر اس پر بات کرنے کو تیار ہیں،اظہار رائے پر کوئی پابندی لگاسکتا ہے نہ ہوگی لیکن اظہار رائے کی آڑ میں کسی کو غلط کام کرنے کی اجازت نہیں دیں گے۔

انہوں نے کہا کہ سوشل سے کوئی ڈرا ہوا نہیں ، سوشل میڈیا کے الزامات پر ضرور اعتراض ہے،سوشل میڈیا کو تمیز اور تہذیب کے ساتھ چلنا ہوگا،پورے ملک کے اندر مروجہ قانون ہیں،وہی طریقہ یہاں پر اختیار کیا گیا ہے۔اس معاملے میں جج صاحب کو دن میں صرف دو کیس سننے ہوں گے،ججز کے پاس تین تین سو کیسز ہوتے ہیں اس لئے وہ ان کیسز کو سن ہی نہیں پاتے۔ انہوں نے کہا کہ وزیر اعلی ایک صوبے کا چیف ایگزیکٹیو ہوتا ہے،توہین کرنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔

اس قانون کے تحت میں پہلا کیس میں لے کر جائوں گی،میری بہن کے حوالے سے غلط بکواس کی گئی ،عزت ضرور ہوگی لیکن اگر کروائو ،وہ آدمی جمعہ جمعہ آٹھ دن ہوئے صحافی بن گیا،ہم نے جو بھگتا ہے اس کا کوئی اندازہ لگا سکتا ہے ،یہ قانون صرف پانچ سات ایجنڈا بیس لوگوں کا مسئلہ ہے ،کچے کے ڈاکو بھی قابو کرنے ہیں اور پکے کے ڈاکو بھی قابو کریں گے ،عظمی بخاری بولتی بہت ہے اس لیے اس کو دبائو میں لاتے ہیں،عظمی بخاری کسی کے دبائو میں نہیں آئے گی ،یہ قانون نہ صحافی کے خلاف ہے نہ حکومت کے حق میں ہے،اگر کسی کے ساتھ زیادتی ہوتی ہے اور تھپڑ مارا جاتا ہے وہ بھی اس کے تحت متعلقہ فورم پر جاسکتے ہیں اور میں ساتھ کھڑی ہوں گی۔

لاہور میں شائع ہونے والی مزید خبریں