نوشکی ‘مادری زبانوں کے عالمی دن کے مناسبت سے ایک سیمینار کا انعقاد

اداروں میں پرائمری تعلیم مادری زبانوں میں دی جائے تاکہ بچوں کو سمجھنے میں آسانی ہو

منگل 20 فروری 2024 22:44

نوشکی (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 20 فروری2024ء) زند اکیڈیمی نوشکی کے زیر اہتمام پریس کلب نوشکی میں مادری زبانوں کے عالمی دن کے مناسبت سے ایک سیمینار کا انعقاد کیا گیا جس کی صدارت ماسٹر جمیل احمد نے کی جبکہ تقریب کے مہمان خصوصی نیشنل پارٹی کے رہنما غلام فاروق بلوچ تھے۔تقریب سے خطاب کرتے ہوئے ماسٹر جمیل احمد نے کہا کہ کسی بھی ملک، معاشرے میں مادری زبان خصوصی اہمیت کا حامل ہے کیونکہ مادری زبان میں طالب علم کی سیکھنے کی صلاحیت دوسرے زبانوں کی نسبت زیادہ آسان اور موثرثابت ہوتا ہے۔

انہوں نے کہا بلوچستان واحد صوبہ ہے جہاں بچوں کو ابتدائی تعلیم دیگر زبانوں میں دی جاتی ہے جس سے انہیں بہت مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے، انہوں نے مطالبہ کہا کہ بلوچستان میں بھی بچوں کو مادری زبانوں میں تعلیم دی جائے اورصوبے کے تعلیمی اداروں میں پرائمری تعلیم مادری زبانوں میں دی جائے تاکہ بچوں کو سمجھنے میں آسانی ہو۔

(جاری ہے)

نیشنل پارٹی کے رہنما غلام فاروق بلوچ نے کہا کہ زبان وادب کے فروغ کے بغیر کوئی قوم ترقی نہیں کر سکتا قوم زبان اور ثقافت کو زندہ رہنے کے لیے مادری زبان کو خصوصی اہمیت حاصل ہے۔

انہوں نے کہا کہ ڈاکٹر مالک بلوچ جب وزیر اعلی تھے تو انہوں نے نہ صرف مادری زبانوں کو بلوچستان میں رائج کیا بلکہ نوشکی میں ممتاز شاعر ادیب آزات جمالدینی اور عاقل خان مینگل کے مقبرے بھی بنوائیں۔ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے معروف صحافی ، محققیار جان بادینی نے کہا کہ اس وقت دنیا میں چھ ہزار زبانیں بولی جاتی ہے اور ہر دو ہفتہ کے بعد ایک زبان ختم ہو کر میوزیم کا زبان بن جاتا ہے، بلوچی اور براہوئی زبان کو زندہ رکھنے کے لیے بنیادی اقدامات کی اشد ضرورت ہے، انہوں نے کہا کہ اگر بلوچی اور براہوئی زبانوں کے فروغ کے لیے اقدامات نہیں اٹھائے گئے تو انہیں بھی معدومیت سے نہیں بچایا جاسکتا۔

پروفیسر غمخوار حیات نے کہا کہ مادری زبانوں کو زندہ رکھنے کے لیے اسکول اور کالجوں میں اسامیاں پیدا کئے جائے تاکہ مادری زبانوں میں درس وتدریس کا عمل جاری ہو۔پروفیسر عزیز احمد جمالدینی نے کہا کہ زند اکیڈیمی کو یہ کریڈٹ جاتا ہے کہ وہ نوشکی سمیت صوبے کے مختلف علاقوں میں ادبی تقریبات منعقد کرواتے ہے جس سے زبان و ادب کو فروغ حاصل ہوتا ہے۔

واجہ لطیف بادینی نے کہاکہ علم وادب کے ترقی کے لیے لائبریری بڑی اہمیت کا حامل ہے، نوشکی کے ہر گاں میں ایک لائبریری بنایا جائے تاکہ طالب علم اس سے استفادہ کر سکے۔ سیمینار کے آخر میں تین اہم قرار دادیں پیش کی گئی جن کو اکثریت نے منظور کیا جن میں بلوچی، براہوئی اور دوسرے زبانوں کو یونیسکو کے لسٹ میں شامل کیا جائے تاکہ وہ میوزیم کا زبان بننے سے بچ جائے، بلوچستان کے اسکول اور کالجوں میں بلوچی اور براہوئی زبان کی اسامیاں پیدا کئے جائے، تاکہ ان زبانوں میں درس وتدریس کا سلسلہ شروع ہو اور ریڈیو اور ٹی وی میں بلوچی اور براہوئی زبانوں کے وقت میں اضافہ کیا جائی.

نوشکی میں شائع ہونے والی مزید خبریں