Andar Ki Tik Tiki - Article No. 1917

Andar Ki Tik Tiki

اندر کی ٹکٹکی - تحریر نمبر 1917

وہ ہم سے کچھ چاہتے نہیں تھے۔ نہ ہماری رائے، نہ ہماری خوشنودی، نہ ہماری دوستی، نہ ہماری دشمنی، بس ایسے آزاد شخص کے لئے ہر ماحول میں خوش رہنا اور کبھی بور نہ ہونا کتنا آسان تھا

آصف مسعود ہفتہ 16 فروری 2019

فیض ڈے والی رات کا ذکر ہے۔اس روز الحمراء کے حال نمبر ایک میں لوگ بڑے دھوم دھام سے فیض صاحب کی یاد کو نظرانے پیش کرنے آئے تھے۔ ہال میں تل دھرنے کی جگہ نہ تھی۔ شمشاد بھائی صدارت کر رہے تھے۔ تصویریں کھینچی جا رہی تھیں۔ کبھی کبھی مجھے احساس ہوتا جیسے شمشاد بھائی موجود نہیں ہیں۔ جب تقریب کے بعد ہم گھر آ رہے تھے تو کار میں میں نے پوچھا۔۔۔۔ "شمشاد بھائی کبھی کبھی آپ غائب ہو جاتے تھے۔
۔۔۔۔ وہ کیوں؟"شمشاد بھائی مسکرائے اور بولے۔۔۔۔۔ "مجھے جب وقت ملتا ہے میں اندر کی ٹکٹکی چلا لیتا ہوں۔""اندر کی ٹکٹکی؟ چودھری صاحب نے پوچھا۔"یار ائرپورٹ ہو۔۔۔۔۔ پلیٹ فارم ہو۔۔۔۔۔ کوئی ایسی جگہ ہو جہاں لمبا چوڑا انتظار ہو تو میں اندر ذکر شروع کر دیتا ہوں۔ پھر نہ وقت کا پتہ چلتا ہے نہ میں کبھی بور ہوتا ہوں۔

(جاری ہے)

"قطب الدین یہ تْو کیسے کرتا ہے۔

دنیا کا ہر کام بھی کر لیتا ہے اور اندر کی کمپس بھی درست رکھتا ہے۔ کیسے کیسے؟؟"چودھری نے کار کی سٹیرنگ پر ہاتھ مارتے ہوئے کہا۔"اگر تم کسی سے میری ٹکٹکی کا ذکر نہ کرو تو میں تمہیں دنیا کو دین بنانے کا نسخہ دے سکتا ہوں۔"ہم دونوں خوشی سے اچھلے اور وعدہ کر لیا۔"زیادہ ملوث ہوئے بغیر دنیا کے کام کرو۔۔۔۔۔۔ سارے کام۔۔۔۔۔۔ لوگوں سے زیادہ گھال میل کے بغیر ان سے ملتے رہو۔
۔۔۔۔ ان کی غمی خوشی میں شامل رہو۔""تیرا خیال ہے قطب الدین یہ آسان کام ہے؟""آسان تو نہیں لیکن کچھ ایسا مشکل بھی نہیں۔ جب کچھ حاصل کرنا چاہو گے تو قدرتی طور پر مبتلا بھی زیادہ ہو گے۔ یہ جو اتنا کثیرالمقاصد ہے اشعر، یہ رنگا رنگی کم ہو جائے گی۔ جب دنیا میں رچ بس کر اس کی گہما گہمی میں کھو کر زندگی بسر نہ کرو تو آہستہ آہستہ اندر گرما گرمی پیدا ہونے لگتی ہے۔
بس یہ ہی نسخہ ہے دنیا کو دین بنانے کا۔۔۔۔۔ سب کام کرو۔۔۔۔۔ سب میں ملے جلے رہو پر اندر کی ٹکٹکی جاری رہے۔۔۔۔۔ اندر کے سفر میں پیدل چلنا کم نہ ہو دھیان ادھر ہی رہے۔" گاڑی نہر کے ساتھ ساتھ جا رہی تھی۔ شمشاد بھائی خاموش ہو گئے غالبا انہوں نے اپنی اندر کی ٹکٹکی جاری کر لی تھی۔ لیکن میرے اندر کا شور بڑھ گیا۔ جب تک میں کسی سے بولتا نہ رہوں یا وہ مجھ سے باتیں نہ کرتا رہے مجھے لگتا ہے کہ یا وہ ناراض ہے یا جلد ہی میری زود رنجی اسے ناراض کر دے گی۔
خاموش ہوتے ہی تنہائی کا بگھیرا دبے پاوٴں میری طرف بڑھنے لگتا ہے۔ میں ماحول، لوگوں کے چہرے اور موسم کا منہ تکنے لگتا ہوں۔ اس رات بھی میں نے شمشاد بھائی کا چہرہ چاند رات میں دیکھا وہ چپ تھے لیکن اداس نہیں تھے۔ انہیں یہ خوف بھی نہیں تھا کہ انہیں چپ پا کر ہم ناراض ہو جائیں گے۔ انہیں ہم سے کچھ حاصل نہیں کرنا تھا۔ وہ ہم سے کچھ چاہتے نہیں تھے۔ نہ ہماری رائے، نہ ہماری خوشنودی، نہ ہماری دوستی، نہ ہماری دشمنی، بس ایسے آزاد شخص کے لئے ہر ماحول میں خوش رہنا اور کبھی بور نہ ہونا کتنا آسان تھا۔

Browse More Urdu Literature Articles