Apne Har Ansoo Mein Maa Nazar Aati Hai - Article No. 2162

Apne Har Ansoo Mein Maa Nazar Aati Hai

اپنے ہر آنسو میں ماں نظر آتی ہے - تحریر نمبر 2162

جب تک میری ماں زندہ رہی میں واقعی ہی سکندر بن کر رہا ۔ دُنیا کو میں جوتے کی نوک پر رکھتا تھا۔ زندگی کے ہر پہلو میں سکندر تھا کیونکہ میری ماں زندہ تھی۔ پھر ایسی بد نظری لگی کہ میری ماں مجھ سے اتنی دور چلی گئی کہ میں تنہا ہو کر رہ گیا

Muhammad Sikandar Haider محمد سکندر حیدر پیر 21 اکتوبر 2019

گذشتہ دس سال جس دشت ِ زیست میں گزرے ہیں اُس دشت نوردی کا کبھی سوچا بھی نہیں تھا۔جینے کے لیے غم بھی سہنا ضروری ہوتا ہے۔ اِس امر کی خبر پہلے کسی نے بھی نہ دی اور نہ ہی دس سال قبل 19اکتوبر 2009کو ماں نے راہ عدم پر رخصت ہوتے وقت یہ بتایا تھا کہ بیٹا سکندر زندگی کے شب ور وز ہر پل ایک نیا امتحان بن کر سامنے آئیں گے۔ نظام اوقات کے مطابق میں بظاہر48برس کے دن رات دیکھ چکا ہوں مگر اِن 48برسوں میں سے اگر گذشتہ دس برسوں کے دن رات کو زیر قلم لاؤں تو بس فقط اتنا لکھ سکتا ہوں کہ میری عمر فقط دس سال کی ہے ۔
کیونکہ دس سال قبل میں نے جب اپنے ہاتھوں سے اپنی ماں کو لحد میں اُتار ا تھا اور اپنے ہاتھوں سے اُس کی مٹی کی قبر بنائی تھی ۔ اُس دن پہلی بار ماں کی موت کے بعد معلوم ہوا کہ زندگی ماں کے بغیر کس بلا کا نام ہے۔

(جاری ہے)

یوں وہ دن میری زندگی کا پہلا دن تھا ۔خالق کا حکم تھا سکندر اپنی ماں واپس کرو ۔خالق و مالک کائنات کے سامنے بے بس و مجبور بندے کی بھلا کیا مجال کہ کوئی بندہ انکاریابچاؤ کی کوئی تدبیر کر سکے اور اپنی ماں کو مرنے سے بچا سکے۔

وہ خالق ہے اُس سے شکوہ بھی نہیں کر سکتے۔ مگر ا تنی کسک ضرور ہے کہ اگر خالق میری ماں کی زندگی کو چند برس کی مہلت دے دیتا تو شائداِس دُنیا کے دیے ہوئے جو کرب میں نے گذشتہ دس برسوں میں سہے ہیں میری ماں اگر زندہ ہوتی تو شائد یوں میں یکے بعد دیگرے اِن کربوں کا آج ستم زدہ نہ ہوتا۔ کہا جاتا ہے کہ ماں کے پاؤں تلے جنت ہے ۔ جنت کے لالچ میں انسان سجدوں سے لے کر نجانے کیا کیا جتن کرتاپھرتا ہے کیونکہ دُنیا کے تمام مذاہب میں جنت کا تصور کسی نہ کسی صورت میں موجود لازمی ہے۔
اب سمجھ آیا ہے کہ دُنیا جس جنت کو اس قدر اہم شے سمجھتی ہے وہ تو فقط ماں کے پاؤں کے تلے موجود ہے۔ میں عالم نہیں ، دانش وار بھی نہیں ، مجھے تو بس اتنا سمجھ آیا ہے کہ جس گھر میں ماں موجود ہے وہ گھرجنت ہے ۔ ماں کی آغوش میں جو پناہ و سکون ہے وہی تو جنت کا تصور ہے۔ ماں کی دعاؤں میں جو کامرانیاں ہیں و ہی تو جنت کا ثمر ہے۔ ماں کے بعد جس انداز میں زندگی نے میرا امتحان لیا ہے اِس عرصہ میں اگر با وفا شریک حیات قابل فخر پسران محمد کمیل حیدر ، علی رضا مشہدی اور بڑئے بھائی سلیم ناز ٍ(میگزین ایڈیٹر نوائے وقت ملتان) سمیت دیگر دوست اور احباب کا ساتھ نہ ہوتا تو شائد میں کب کا زندگی کی بازی ہا ر چکا ہوتا۔
میرے پاس دُنیا کی ہر نعمت میری حیثیت اور اوقات سے کہیں زیادہ ہے مگر میری آنکھوں میں اگر کوئی تشنگی ہے تو اپنی ماں کی کمی کی ہے ۔عجب حجت قدرت ہے ۔ جب کچھ نہیں تھا تو ماں پاس تھی آج جب بس کچھ میرے پاس ہے تو ماں نہیں۔یعنی میں تو پہلے سے بھی زیادہ غریب ہو گیا ہوں۔ سکون، راحت ، خوشی ، دشمنوں اور حاسدوں سے بچاؤ کی ڈھال تو میری ماں تھی۔ میں کمزور اور لاغر تھا اُس عظیم ماں نے مجھے اپنی زندگی کے قیمتی شب روز دے کر جوان کیا اور بے نام کو سکندر کا نام دیا ۔
جب تک میری ماں زندہ رہی میں واقعی ہی سکندر بن کر رہا ۔ دُنیا کو میں جوتے کی نوک پر رکھتا تھا۔ زندگی کے ہر پہلو میں سکندر تھا کیونکہ میری ماں زندہ تھی۔ پھر ایسی بد نظری لگی کہ میری ماں مجھ سے اتنی دور چلی گئی کہ میں تنہا ہو کر رہ گیا۔ مجھے بخوبی یاد ہے کہ میں سکول نہیں جاتا تھا ۔ سارا دن کرکٹ اور فٹ بال کھیلنے کاجنون ہوتا تھا۔ گھر میں داخل ہوتے ہی ماں سے جوتوں سے خوب مار پڑتی تھی۔
سکول نہ جانے کا بہانہ کرتا توکان سے پکڑ کر کبھی کبھار تو وہ گھر کے قریب واقع سکول میں خود اُستانی جی کے حوالے کر آتی تھیں۔ سکول سے کالج، کالج سے یونیورسٹی ، یونیوسٹی سے نوکری ، شادی ، بچے ، صحافت ، شہرت ، دولت ہر مرحلہ زندگی گزرتا گیا ۔ اِ س دوران عروج و زوال کے تمام کھیل بھی دیکھے مگر جب تک ماں زند ہ رہی کبھی نہیں گھبرایا۔ میرے جسم پر تپتی دھوپ کا احسا س مجھے اُس وقت ہوا جب میری ماں کی وفات کے بعد رشتوں کے بندھن آہستہ آہستہ ٹوٹنے لگے۔
ہر انسان کی ماں عظیم ہوتی ہے مگر میری ماں میں یہ اضافی خوبی تھی وہ تمام خاندان کو جوڑ کر رکھنے والی سب کے لیے یکساں قابل احترام شخصیت تھیں۔ اُن کے جانے سے رشتوں کی تسبیح بکھر گئی۔ گذشتہ دس سالوں میں جدید ٹیکنالوجی کی ترقی نے رشتوں کو موبائل فون اور لیپ ٹاپ میں سمیٹ کر رکھ دیا ہے۔رشتوں کی مٹھاس ٹیکنالوجی کی دوڑ میں کہیں گم ہو گئی ہے۔
رشتوں اور افراد کی اہمیت وقت پر ہی اچھی لگتی ہے ورنہ پھر پچھتاوے ہی باقی رہ جاتے ہیں۔ ماں کے بغیر اب سانسیں تو بحال ہیں مگر وہ بے فکری زندگی، خوشیاں، شوخیاں ، لاپرواہیاں ، سیرو سیاحت اور گھر کی رونقیں ،دُنیا کی تلخیوں کے زہر میں گم ہو گئی ہیں جو کہ دس سال قبل ماں کی موجودگی میں مجھے مفت میسر تھیں۔ ماں کے بعد اب یہ حقیقت تو کھل کر سامنے آگئی کہ اللہ سے انسان کا قریب ترین رشتہ آنسو کا ہے اور مجھے اب اپنے ہر آنسو میں ماں نظر آتی ہے۔

Browse More Urdu Literature Articles