Bhook - Article No. 1981

Bhook

بھوک - تحریر نمبر 1981

ایک دس سالہ بچے کی آپ بیتی جوبھوک سے لڑتے لڑتے اپنے باپ کو کھو بیٹھا۔ ہم غریبوں کی قسمت میں یہی روکھی سوکھی روٹی لکھی ہے ․․․ساری زندگی یہی کچھ کھانا ہے ۔

منگل 26 مارچ 2019

ایک دس سالہ بچے کی آپ بیتی جوبھوک سے لڑتے لڑتے اپنے باپ کو کھو بیٹھا۔ ہم غریبوں کی قسمت میں یہی روکھی سوکھی روٹی لکھی ہے ․․․ساری زندگی یہی کچھ کھانا ہے ۔ہم غریبوں کی تقدیر اتنی اچھی نہیں ہوتی کہ چھپر پھاڑ کر ڈھیر ساری دولت ہمارے پاس آگرے ۔جس سے ہم اچھے اچھے کپڑے خریدیں اور اچھا کھانا کھائیں ۔کریموں اکثر اپنے بیٹے گلوکویہ باتیں سمجھایا کرتا۔


محنت مزدوری کے باوجود کریموں کو اتنی کم اجرت ملتی کہ وہ صرف ہفتے میں ایک مرتبہ ہی گلو کو سالن روٹی کھلاپاتا۔
ایک روز کریمو ں نے گلو کو صبح سویرے ہی اٹھادیا․․․ہاتھ منہ دھو کر وہ کمرے میں آیا تو چار پائی پر رات کی بچ جانے والی ایک روٹی اور اس پر تھوڑا سا دہی رکھا ہوا تھا․․․․اس نے ایک لقمہ توڑا ،منہ میں رکھا لیکن سخت اور کڑک ہونے کے باعث نگلا نہ گیا تو اسے ایک طرف تھوک دیا اور اور غصے میں گھر سے باہر نکل آیا۔

(جاری ہے)

اس کے تن بدن میں آگ لگی ہوئی تھی․․․اسے رہ رہ کر اپنی غربت پر سخت غصہ آرہا تھا۔
”کیا صبح ،دو پہر ،شام یہی ایک سوکھی روتی میرا مقدر ہے ․․․؟کیا ساری عمر یہی کھانا ملے گا․․․؟کیا میں کبھی اچھا کھانا نہیں کھا سکتا ․․․؟کیا سالن روٹی کھانے کے لیے پورا ہفتے بھوکا رہنا پڑتا ہے ․․․؟“
سارے راستے وہ ان ہی سوچوں میں گُم چلاجارہا تھا۔
چلتے چلتے وہ ایک ہوٹل کے قریب پہنچ گیا۔تندور پر روٹیاں پک رہی تھیں اور ہوٹل کے اندر لوگ بیٹھے کھانا کھارہے تھے ۔اس کی آنکھوں میں امید کی ہلکی سی کرن چمکی ۔اس کے قدم ہوٹل کی طرف بڑھنے لگے ۔وہ تندرو کے پاس ہی ٹھہر گیا․․․روٹیوں کی اشتہا انگیز خوشبو اس کے نتھنوں میں گھسی تو اس کی بھوک اور زیادہ چمک اٹھی ۔اس نے اپنے آپ کو بمشکل سنبھالا ،ایک طرف کھڑا ہوا اور روٹیاں لگتی اترتی دیکھنے لگا۔

گلو کچھ دیر یو نہی کھڑا رہا پھر خیال آیا کہ اس طرح کھڑے ہونے کا کوئی فائدہ نہیں۔وہ تندورکے پاس کھسک آیا۔اب اس کی بھوک بے تحاشہ بڑھ گئی۔
روٹیاں اس کے سامنے تندرو میں لگتیں اور وہاں نکل کر اندر ہوٹل میں بھیج دی جاتیں ۔کچھ دیر کھڑا رہنے کے بعد جب اسے محسوس ہوا کہ اب اس کی ٹانگوں میں کھڑے رہنے کی مزید سکت نہیں ،تو گلو نے سوچا کھڑ ے کھڑے ٹھٹھر نے کے بجائے روٹی لگانے والے سے کیوں نہ ایک روٹی مانگ لے ․․․اس نے منہ کھولا لیکن الفاظ اس کے حلق میں اٹک گئے ۔
کئی بار کوشش کی لیکن وہ کچھ بول نہ سکا ۔اس نے اپنا ارادہ تر ک کر دیا۔ پھر سوچنے لگا کہ اگلی روٹی باہر آئے گی ،تو اسے اٹھا کر بھاگ جاؤں گا ۔بھلا تندور والا ایک روٹی کی خاطر اس کے پیچھے کیا بھاگے گا․․․؟پھر گھر جا کر آرام سے بیٹھ کر روٹی کھاؤں گا۔“
اب وہ روٹی اتر نے کا انتظار کرنے لگا۔روٹی اتر کر باہر آئی تو اس نے ہاتھ بڑھانا چاہا لیکن اسے یوں محسوس ہوا جیسے اس کے بازو کندھے سے جدا ہو گئے ہیں اور وہ روٹی اٹھانے سے قاصر ہے ۔
گھبرا کر گلو نے اپنے بازو ٹٹولے ،وہ تو وہیں موجود تھے ۔اس نے ہاتھ ہلانے چاہے لیکن وہ ایسا نہ کرسکا۔کئی بار کوشش کے بعد جب وہ کوئی روٹی نہ اٹھا سکا ،تو اس نے ارادہ ترک کر دیا۔
مایوسی سے کبھی روٹیاں لگانے والے کو دیکھنے لگا اور کبھی ہوٹل کے اندر کھانا کھاتے لوگوں کو ․․․انہیں دیکھ کر اس کی آنکھوں سے آنسو چھلک اٹھے ۔اس نے ضبط کرنے کی بہت کوشش کی لیکن کامیاب نہ ہو سکا۔

اس سے پہلے کہ وہ پھوٹ پھوٹ کر روپڑتا،تندور والے نے ایک جلی ہوئی روٹی پرے پھینک دی ۔گلو نے ایک نظر تندور والے کو دیکھا اور پھر روٹی کی طرف ․․․جلی ہوئی روٹی سے اُٹھتا دھواں اس کی بھوک مزید بھڑ کانے لگا ۔جو نہی تندور والا دوسری روٹی کی طرف مڑا ،اس نے چپکے سے جلی روٹی اٹھائی ۔قمیض کے نیچے چھپائی اورتیزی سے گھر کی طرف بھاگ اٹھا۔
گلی میں داخل ہوا ،تو اس نے اپنی رفتار دھیمی کر دی ۔گھر میں داخل ہوتے ہی اس نے قمیض کے نیچے دبی ہوئی روٹی نکالی لیکن جو نہی ایک لقمہ توڑ کر منہ میں رکھا اسے لگا جیسے اس کا منہ کوئلوں سے بھر گیا ہوں ۔
منہ سے روٹی تھوک کر گلونے بار بار پانی سے کُلی کی ،منہ صاف کیا پھر چار پائی پر لیٹ کر اپنے اباکا انتظار کرنے لگا․․․اسے معلوم تھا کہ وہ آئیں گے تو روٹیاں بھی لائیں گے ۔
اب ان ہی کی لائی ہوئی روٹیوں سے اس کی بھوک مٹے گی۔
سورج غروب وہ گیا․․․شام کے سائے گہرے ہوئے لیکن اس کا ابا نہیں آیا ۔گلو کا پیٹ کمر سے جالگا․․․اسے یوں محسوس ہونے لگا جیسے جلد کچھ کھانے کو نہ ملا تو وہ مر جائے گا․․․
وہ اپنی سوچوں کے تانے بانے میں گم تھا کہ دروازے پر دستک ہوئی :ایک بار ․․․دوبار ․․․تین بار․․․لیکن گلو میں اب اتنی بھی سکت نہیں تھی کہ اٹھ کر جواب دے سکتا۔

کافی دیر دروازہ پیٹنے پر بھی جب اندر سے کوئی جواب نہ آیا تو پڑوس کے ایک شخص نے دروازے سے اندر جھانکا ،تو گلو کو بغیر حرکت چار پائی پر لیٹا دیکھ کر اندر آگیا۔
قریب آکر اس نے ایک دوبار اسے پکارا لیکن جواب نہ پاکر گلو کی نبض ٹٹولی ۔نبض چلتی دیکھ کر اس نے پڑوس کے کچھ لوگوں کو آواز دی ․․․چھ سات آدمی اندر آگئے ۔لیکن وہ یہ نہ دیکھ سکا کہ وہ چار پائی پر کس کو اٹھا کر اندر لائے ہیں ․․․وہ اپنے ہوش وحواس میں نہیں تھا ۔
گلو کو ہوش میں لانے کے لیے پڑوس کے ایک شخص نے اسے گرم گرم دودھ پلایا تو اس نے آنکھیں کھول دیں اور حیرت سے ادھر ادھر دیکھنے لگا۔اس کی سمجھ میں نہ آیا کہ وہ کہا ں ہے ۔گلو کو حیرت میں دیکھتے ہوئے پڑوس کی خالہ زہرہ نے گلو کے سر پر ہاتھ رکھا اور پیار سے کہا:
”بیٹے! تم اس وقت میرے گھر پر ہو ․․․صبح سویرے تمہارے خالو تمہارے گھر گئے تو تم بے ہوش پڑے تھے ۔
ایسا لگ رہا تھا جیسے تم نے کئی دنوں سے کچھ نہیں کھایا۔تم اپنے ابو کا انتظار کر رہے تھے ۔لیکن بیٹے ․․․شایدخدا کو یہی منظور تھا۔“
”جی ․․․میں نے دو دن سے کچھ نہیں کھایا۔ابا کو روٹیاں لانی تھیں تبھی میں کھاناکھاتا لیکن معلوم نہیں وہ کدھر چلے گئے ۔ابھی تک نہیں آئے۔“
”بیٹے کل تمہارے ابو گاڑی کی زد میں آگئے تھے ․․․اب وہ اس دنیا میں نہیں رہے ۔
اللہ کو پیارے ہو گئے۔“
ابا کی موت کی خبر سن کرگلوبے اختیار زاروقطار رونے لگا۔تھوڑی دیر میں خالہ زہرہ اس کے لیے گرم گرم کھانا لے آئی ․․․ اس نے گرم گرم لذیذ کھانا دیکھا تو اسے روٹیاں یاد آگئیں․․․یہ بھی یاد آگیا کہ تندور پر اس کے ساتھ کیا بیتی تھی ۔اسے یہ بھی یاد آیا کہ اب نے اسے سالن کھلوانے کے بدلے ہفتہ بھر کی بھوک سے ڈرایا تھا․․․گرماگرم کھانا سامنے دیکھ کر اس کی بھوک چمک اٹھی۔

وہ اپنے ابا کی موت کو بھول کر کھانا کھانے میں مشغول ہو گیا۔
”بیٹا! اب تم ہمارے پاس ہی رہوگے․․․“خالہ زہرہ شفقت سے گلو کے سر پر ہاتھ پھیرنے لگیں ۔ان کی بھی کوئی اولاد نہ تھی۔
خالہ زہرہ کی بات سن کر گلونے سر اٹھا کر دیکھا ۔اس کی آنکھوں میں نمی اتر آئی اور ستارے سے چمکنے لگے لیکن اس نے اپنے آنسوؤں پر قابو پالیا۔خالہ زہرہ کی طرف سے نگاہ ہٹائی اور پھر کھانے پر توجہ مبذول کر دی ۔تھوڑی دیر بعد چاولوں کا لقمہ منہ کی طرف بڑھاتے ہوئے خود کلامی کے انداز میں وہ بڑ بڑایا:
”ابا!․․․سالن روٹی چاہیے․․․!“

Browse More Urdu Literature Articles