Doctor Riger Se Doctor Abhijeet Tak - Article No. 1989

Doctor Riger Se Doctor Abhijeet Tak

ڈاکٹر رائیکر سے ڈاکٹر ابھیجیت تک! - تحریر نمبر 1989

ابھیجیت کہتا ہے کہ ایسے بے حال اور لاوارث قسم کے مریضوں کی دیکھ بھال کیلئے ہم سب کو، ہمارے معاشرے کو اآگے آنا چاہیے۔اب ایک اطلاع اور سْن لیجیے کہ ہمارے ایک پرہیزگار ’ دوست‘ کا کہنا ہے کہ وہ کچھ بھی کر لے مگر ابھیجیت کیلئے تو دوزخ سْلگ رہی ہے

Nadeem Siddiqui ندیم صدیقی پیر 1 اپریل 2019

مْمبرا (نواح ممبئی ) میں ایک طرف پہاڑی اور دوسری طرف کھاڑی ہے۔1975 کے آس پاس کازمانہ تھا کہ مْمبرا ریلوے اسٹیشن کے سامنے مسجد کمپاؤنڈ میں شام سات بجے کے بعد ایک ڈِسپنسری کھلتی تھی جہاں پہلے ہی سے مریض قطار لگائے بیٹھے رہتے تھے۔ ان مریضوں میں زیادہ تر ریتی بندر(ممبرا) کے مزدور ہوتے تھے، ہم بھی اگر بیمار پڑے تواسی ڈِسپنسری سے دوا لیتے تھے۔
یہ دواخانہ ڈاکٹر رائیکر چلاتے تھے، جن کے بارے میں مشہور تھا کہ وہ ( ممبئی کے ایک مضافاتی علاقے) مْلنْڈ کے کسی سرکاری ہسپتال میں کمپاؤنڈرتھے اور وہاں سے فراغت کے بعد ممبرا کی اس ڈِسپنسری میں غریب غربا کے مسیحا بن جاتے تھے۔ اللہ نے اْن کے ہاتھ میں کیسی شفا دی تھی؟! چند لفظوں میں بس یہ کہ عام طور پرمریض ایک دو دِن میں شفا پاجاتا تھا ، شاید ہی کسی مریض کو ڈاکٹررائیکر کے ہاں تیسرے دِن جانا پڑتا تھا۔

(جاری ہے)

ہم اسکے چشم دید گواہ ہیں کہ مسٹر رائیکر جو اپنے طرزِ رہن سہن اور وضع قطع سے سادہ بالکل سادہ مزاج واقع ہوئے تھے، بلکہ یو ں کہا جائے کہ آجکل کے ڈاکٹروں کے مقابلے میں وہ تو کچھ بھی نہیں تھے مگر اللہ نے اْن کے ہاتھ میں شفا ہی نہیں بلکہ دلِ درد مند بھی دے رکھا تھا اور دْنیا کی ہوس سے انھیں دور کر دِیا تھا۔ وہ اپنے مریضوں سے دواکی قیمت کے نام پر صرف ایک روپیہ لیتے تھے اگر کبھی کسی کو انجکشن لگانے کی ضرورت پڑی اوروہ بھی مریض سے پوچھ کر کہ ” سوئی لگاؤں کیا؟“۔
۔۔ اگر مریض نے ’ہاں‘ کہا تو وہ انجکشن لگا تے تھے تب دوا اور انجکشن کے وہ دو روپے لیتے تھے،یہ سلسلہ ہم نے برسہا برس دیکھا ہے۔(ڈاکٹر) رائیکر کا تذکرہ ہو رہا تھا کہ ماضی بعید کیایک ڈاکٹرعبد الرشیدکھٹکھٹے “ بھی یاد اآگئے، ڈاکٹر کھٹکھٹے (MBBS)کا خاصا بڑادواخانہ بنیان اسٹریٹ نزد پائیدھونی(ممبئی) میں ہوا کرتا تھا، یہ 1960 کے بعد کا زمانہ اور ہمارا سِن یہی کوئی بارہ تیرہ برس رہا ہوگا۔
اپنے بزرگوں کے ساتھ ڈاکٹر کھٹکھٹے کے ہاں جاتے تھے۔ اْن کے بعض مریض جو ہم سے عمر میں بیش ہیں، وہ بتاتے ہیں کہ ڈاکٹر کھٹکھٹے بھی دواکی قیمت کے نام پر ایک روپیہ سے زیادہ نہیں لیتے تھے اور اْن کا دواخانہ بھی کبھی خالی نہیں دیکھا گیا۔ ان کے بارے میں بھی ہمارے بزرگ بتاتے ہیں کہ دوا کی ایک دن کی خوراک کے بعد شاذ و نادر ہی کسی مریض کو دوسرے دِن دوا کی ضرورت پڑتی تھی، دوسری خاص بات یہ تھی کہ ڈاکٹرعبد الرشیدکھٹکھٹے کسی مریض کو پیشاب، یا خون ٹیسٹ کرنے کیلئے کسی لیبارٹری میں نہیں بھیجتے تھے در اصل اْس زمانے کے اکثر طبیب یا ڈاکٹر مریض کی شکل اورحالت دیکھ کر ہی مرض تک پہنچ جاتے تھے۔
یہ باتیں پرسوں ہمارے ایک دوست کے برادر کو دیکھ کر یاد آئیں، اس برادر کو پاؤں میں غالباً اکزیما تھا اوراسے سال بھر گزر رہا تھا کہ وہ مرض کسی دوا یا مرہم سے غائب ہوجاتا مگر پھر عود کر آتا۔ مریض کو کسی نے ایک مسلم ماہرِ جِلد(اِسکن اسپیشلسٹ ڈاکٹر) کانام بتایا ، مریض نے پہلے تو ڈاکٹر کے دواخانے فون کر کے ملاقات کا وقت طے کیا تو مریض کو چیک کرنے کی فیس ہزار روپے بتائی گئی، خیر وقت مقررہ پر اکزیما کا مریض ماہر جِلد کے پاس پہنچا، اسے اتفاق کہیے کہ جب وہ لوٹا تو اِس مریض سے پھرہماری ملاقات ہوگئی، اب جو اِس مریض کی زبانی ڈاکٹر سے ملاقات کی روداد سْنی تو ممبئی کے ڈاکٹر عبد الرشید کھٹکھٹے سے لے کر ڈاکٹر رائیکر تک اور بھی کئی میڈیکل پریکٹشنریاد اآگئے۔
بتایا گیا کہ ہزار روپے فیس کے بعد پندرہ سَو روپے کی دوائیں خریدوائی گئیں اور کہا گیا کہ” فلاں دن آپ فلاں جگہ چلے جائیے جہاں متاثرہ جگہ کا گوشت نکال کراْس کا ٹسٹ کیا جائے گا۔“ مریض اس ٹیسٹ کا نام ہی سْن کر گھبراگیا۔ اس کا ذہن نجانے کہاں ہاں پہنچ گیا۔ماضی بعید سے تاحال اخبارات میں حکیموں اور ڈاکٹروں کے اشتہارات کا سلسلہ بھی ذہن میں تازہ ہوگیا۔
اسکے باوجود اْس دَور کے اطبا، اشتہاری ڈاکٹر نہیں تھے، آپ نے بھی اشتہاری جرم کی اصطلاح سْن رکھی ہوگی!!۔۔۔۔ماضی قریب کے ممبرا ہی کے ایک ڈاکٹر’ ماہتاب‘ بھی ذہن میں روشن ہو رہے ہیں جن کا اشتہاری دعویٰ تھا کہ وہ سرطان (کینسر) کا شافی علاج کرتے ہیں۔ شہر کے معاصر اخبار میں اْن کے دعوے کا باقاعدہ اشتہار چھپتا تھا کہ ایک دِن مدیرِ محترم فضیل جعفری کی نظر اس اشتہار پر پڑ گئی ، اْنہوں نے اس اشتہار کو شائع کرنے سے انکار کردِیا۔
اشتہاری ایجنسی کے مالک نے منت سماجت کی مگر فضیل جعفری نے’جو کہہ دِیا سو کہہ دِیا‘ پر اٹل رہے بلکہ جب اْن پر دباؤ ڈالا گیا تو کہنے لگے کہ” اگر واقعی یہ کینسر کا شافی علاج جانتا ہے تو اسے پھر نوبل انعام دِیا جانا چاہیے ،مَیں سرکار دربار میں اس کی تحقیق کی درخواست دوں گا۔“یہ بات جب مذکورہ ڈاکٹر تک پہنچی تو ’ تحقیقات“ کے نام پر وہ خود ٹھنڈا پڑ گیا۔
افسوس اب اخبارات میں مدیر نام کا عہدہ تو ضرور ہے مگر یہاں سے مدیر رخصت ہوگیا ہے، ہم جیسے لوگ اب دفتر میں نہیں، اخبار کے کارخانے کے مزدور بن کر رہ گئے ہیں۔ ہمارے ہم عمردوست عبد الرب کوثر کا جواں سال اکلوتا بیٹا سرطان کا شکار ہوا، اللہ نے اس دوست کو مالی طور بھی پر آسودہ کر رکھا ہے اس نے بیٹے کو ہر حکیم، ہر وید، ہر ڈاکٹر کو دِکھایا اور منہ مانگی فیس اور مہنگی سے مہنگی دوائیں ان طبیبوں سے لیں مگر ہونا وہی تھا کہ ایک دِن اس کا اکلوتا بیٹا اللہ کو بھی پیارا ہوگیا ، ہم جب تعزیت کیلئے پہنچے اور ہمارے دوست نے ڈاکٹروں کے اپنے تلخ تجربے بیان کیے تو اس کا یہ جملہ روح کو تڑپا گیا کہ اس معاملے میں جتنے مسلم ڈاکٹرملے انہوں نے اْمید کے نام پر جی بھر کر ہماری جیب ہلکی کی اس کے بر عکس دو ایسے ڈاکٹر بھی ملے جنہوں نے پہلی ہی تشخیص میں مجھے الگ بلا کر صاف صاف بتا دِیا تھا کہ ” مرض انتہا پر پہنچ چکا ہے ہم اس کے مرض کو تو نہیں مگر اس کی تکلیف کوکچھ کم کرنے کی ضرور کوشش کرینگے باقی تو ’ بھگوان‘ ہی بہتر جانتا ہے۔
“ہم نے اپنے دوست سے یہ بھی پوچھا کہ اس پورے علاج و معالجے میں سب سے مہنگا طبیب کون تھا۔؟ جواب ملا: ”ہومیو پیتھ کے ڈاکٹر نما جن کے بڑے بڑے رنگین اشتہار آپ لوگ اخبار میں چھاپتے رہتے ہیں۔“ یونانی، آیورویدک، ایلو پیتھک طریقہ علاج میں ہومیو پیتھ ہی وہ طریقہ علاج ہے جو اِس مہنگائی کے دَور میں بھی سب سے سستا ہے مگر ہمارے بھائی لوگ تو فائی اسٹار ڈاکٹر بننے کے کینسر میں مبتلا ہیں، انکے دواخانے نہیں شو روم بنے ہوئے ہیں۔
یہ ڈاکٹر رائیکر کی طرح سادہ زِندگی کا تصور بھی نہیں کر سکتے۔ ان کے پاس پہلے دو پہیے والی گاڑی، کیا کہتے ہیں اْسے۔۔۔! ہاں، بائیک۔۔۔اور پھرجلد ہی سوٹ بوٹ کے ساتھ کارمیں وہ یوں دکھائی دیتے ہیں، جیسے بِرلا جی کے پوت ہوں۔دو دِن قبل پونے کے ڈاکٹر ابھیجیت سْناونے کا وِیڈیو کسی صاحب ِدرد مند نے ہمیں بھیجا ہے۔ڈاکٹر ابھیجیت کی بھی شہرت ہے مگر کیسی شہرت۔
۔۔؟ سنیے،اسے اکثر لوگ بھکاریوں کے ڈاکٹر کے نام سے یاد کرتے ہیں۔ یہ نوجوان ڈاکٹرابھیجیت گلی کوچوں میں بوڑھے اور لاوارث قسم کے مریضوں کو تلاش کر کے اْن کا مفت علاج کرتا ہے اور خاص بات یہ کہ وہ سڑک پر بوڑھی عورتوں کے پاس بیٹھ کر اسٹیتھااسکوپ لگا کر، ان کاخون کا دباؤ ( بلڈ پریشر) چیک کرتا ہے، اپنے پاس سے دوا دیتا ہے اور اہم بات یہ بھی کہ وہ اس عمل سے قلبی سکون محسوس کرتا ہے ، ابھیجیت کہتا ہے کہ ایسے بے حال اور لاوارث قسم کے مریضوں کی دیکھ بھال کیلئے ہم سب کو، ہمارے معاشرے کو اآگے آنا چاہیے۔
اب ایک اطلاع اور سْن لیجیے کہ ہمارے ایک پرہیزگار ’ دوست‘ کا کہنا ہے کہ وہ کچھ بھی کر لے مگر ابھیجیت کیلئے تو دوزخ سْلگ رہی ہے، ہم نے اْس سے سوال کیا کہ” اور وہ ماہرِ جِلد ڈاکٹر کے بارے میں کیا پیش گوئی ہے۔؟“اتنے میں قریب کی مسجد سے اذان کی آواز گونجی اور وہ دوست اللہ کے گھرکی طرف نکل گیا۔ #

Browse More Urdu Literature Articles