Goonjti Hai Woh Masoom Surili Chahek Mere Kaano Mein - Article No. 1952

Goonjti Hai Woh Masoom Surili Chahek Mere Kaano Mein

گونجتی ہے وہ معصوم سریلی چہک میرے کانوں میں - تحریر نمبر 1952

پیار سے اس کو قالو اور ککو مونجا کہ دیا کرتی تھی۔ وہ پاپا کے کندھوں پر اور مما کی گود میں گھنٹوں بیٹھا رہتا اور صبح صبح اٹھتے ہی پاپا کے کندھے پر بیٹھ کر سلانٹی اور دوسری چیجییاں لاتا

سمن رفیع جمعہ 8 مارچ 2019

بلبل اور پھول کے ذکر کے بغیر اردو ادب کا حسن تکمیل کو نہیں پہنچ سکتا۔ ہر دور کے شاعروں نے بلبل اور پھول کو بطور تشبیہ مستعمل کر کے شاعری کو مزین کیا ہے۔ مرزا غالب کا شعر ہے :”آ عندلیب مل کر کریں آہ و زاریاں،تو ہائے گل پکار میں چلاوں ہائے دل “اور خواجہ حیدر علی آتش”یہ آرزو تھی تجھے گل کے روبرو کرتے،ہم اور بلبل بے تاب گفتگو کرتے“اور علامہ اقبال”پروانے کو چراغ بلبل کو پھول بس،صدیق کے لئے ہے خدا کا رسول بس“اور”کون کہتا ہے نالہ بلبل کو بے اثر،پردہ گل کے لاکھ جگر چاک ہو گئے“ کچھ ادیبوں میں عام طور پر یہ تاثر کیوں پایا جاتا ہے کہ پاکستان میں بلبل نہیں پائی جاتی۔
مجھے ایک بات کی سمجھ نہیں آتی کہ اگر بلبل پاکستان میں نہیں پائی جاتی تو پھر اسے دیکھے بغیریہ لوگ اردو ادب میں بلبل کی تشبیہ کس طرح دے سکتے ہیں یا کیونکر دے سکتے ہیں۔

(جاری ہے)

۔؟ میں بھی شاید اس غلط فہمی پر ایمان لے آتی اگر مجھے بلبل سے ذاتی تجربہ نا ہوتا یہ تجربہ ایک بلبل کے بچے کے ساتھ بہت خوشگوار اور خوبصورت ساتھ اور یادوں پر مبنی ہے۔اور میں یہ کہہ سکتی ہوں کہ۔

بلبل پاکستان میں پائی جاتی ہے میں نیلاہور جیسے آلودہ شہر میں بھی درختوں پر بلبل کو دیکھا ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ بلبل تب ہی نظر آسکتی ہے جب آپ کو اس کی پہچان ہو اور اس کی آواز کی پہچان ہو۔ مجھے بلبل کی سریلی آواز کی شدید عادت ہو چکی ہے میرے ہوسٹل کے کمرے کے بایر درختوں پر بیٹھی بلبلوں کی چہک اور چہچہاہٹ میرے کمرے میں گونجتی ہے۔بلبل کی شبیہہ میری آنکھوں میں محفوظ ہو چکی ہے اور بلبل کی سریلی آواز میری کانوں میں گونجتی رہتی ہے ایک۔
سریلی معصوم آواز کی گونج۔ چھٹے سمسٹر کے امتحانات کے بعد سمسٹر بریک چل رہی تھی۔ رمضان کا آخری عشرہ تھا اور میں گھر گئی ہوئی تھی۔ ان دنوں بہت بارشیں ہو رہی تھیں اور ماحول نم آ لود ہونے کے باعث گرمی کی شدت چند روز کے لئے کافی کم ہو گئی تھی۔ ایسے ہی ایک شام جب کہ ہم سب افطاری کا سامان دستر خوان پر رکھے اذان کا انتظار کر رہے تھے کہ اچانک اس زور سے طوفانی آندھی آئی کہ سب دروازے کھڑکیاں زور زور سے بجنے لگے مٹی دھول کھانے کی چیزوں میں پڑ گئی۔
اور ساتھ ہی تیز موسلا دھار بارش شروع ہو گئی۔ جب اس شب طوفان بادو باراں کی صبح ہوئی تو ابو بکر کسی کام سے گھر سے باہر گیا اور واپس آ کر والدہ صاحبہ سے پوچھنے لگا کہ مما باہر پانی میں ایک چھوٹا سا لالی کا بچہ ڈوبا ہوا کانپ رہا ہے اسے اندر لے آوں والدہ صاحبہ انتہا کی نرم اور رحم دل واقع ہوئی ہیں لہٰذا فورا اجازت دے دی۔ ابوبکر اسے اندر لے آیا۔
جب مجھے یہ واقع معلوم پڑا تو میں نے دیکھا کہ وہ ایک تئن چار دنوں کا چھوٹا سا بچہ تھا جو ابھی خود کھانے پینے کے بھی قابل نا تھا اور منہ کھول کر کھانا مانگتا تھا۔ اس کی دیکھ بھال کے لئے سب سے چھوٹی بہن آگے آئی اور اسے چھوٹے سے چمچ سے کھلانا پلانا شروع کیا۔ یوں اس کی دیکھ بھال شروع ہو گئی اور والد صاحب نے بلی سے بچانے کے لیے ایک چھوٹا سا پنجرہ لا دیا۔
شروع میں ہم اسے لالی کا بچہ یا پھر کالی چڑیا کا بچہ سمجھ رہے تھے۔ مگر پھر میں نے غور کیا تو یہ مجھے بلبل جیسا لگا۔ کیونکہ اس کے سر پر بلبل جیسا spikeبنا ہوا تھا مجھے بلبل کی پہچان تھی بلبل کی نشانی سر پر بالوں کا spike اور دم کے نیچے لال رنگ ہے۔ کیونکہ میں ہوسٹل میں بلبل کو سریلی آواز میں گاتے بڑے شوق سے دیکھا کرتی تھی۔ لہٰذا میں نے گھر والوں کو بتایاکہ بلبل کا بچہ ہے۔
اس بات کی مزید تصدیق اس وقت ہو گی جب یہ بڑا ہو جائے گااور اس کی دم کے نیچے لال رنگ آئے گا۔ شروع کے دنوں میں یہ شاید اکیلا ہونے کے باعث ہماری طرف پر امید نظروں سے دیکھ کر بہت چوں چوں کیا کرتا تھا اور پنجرے کو ٹکڑے مار مار کر اپنی چونچ زخمی کر لیتااس کی یہ بے چینی مجھ جیسے نازک دل کا دل دہلانے کے لئے کافی تھی۔ ایک دن جب کہ یہ بہت بول رہا تھا میری بہن نے اسے موبائل پر کوئی نعت لگاا کر دی یہ بلبل بچہ چپ ہو کر مست ہو کر بیٹھ گیا اس سے مجھے اندازہ ہوا کہ بلبل ایک باذوق پرندہ ہے مزید ثبوت تب ملا جب یہ بڑا ہو گیا تھا اور موبائل پر نعت نغمہ یا گیت بہت شوق سے سنتا تھا۔
میری بہن کے پاس بیٹھ کر موبائل کی سکرین پر چونچ مارتا کہ یہ لگاو اور جب کوئی نغمہ لگایا جاتا تو وہ مست ہو کر وہی بیٹھ جاتا اور ساتھ ساتھ خود بھی اپنی سریلی اور مدہم آواز میں گاتا۔ ہر گزرتے دن کے ساتھ وہ ہم سے استوار ہوتا جا رہا تھا اور ہم اس سے۔ اس کی ہر نئی شرارت اور حرکت دل کو بہت بھاتی۔ہر گزرتے دن کے ساتھ وہ نئی نئی حرکتئں سیکھتا۔
مجھے جب اس کی حرکتیں شرارتیں اور خوبصورت آواز بہت اچھی لگتی تھی تو میں پیار سے اس کو قالو اور ککو مونجا کہ دیا کرتی تھی۔ وہ پاپا کے کندھوں پر اور مما کی گود میں گھنٹوں بیٹھا رہتا اور صبح صبح اٹھتے ہی پاپا کے کندھے پر بیٹھ کر سلانٹی اور دوسری چیجییاں لاتا۔ کچھ دنوں بعد چاچو ایک چڑیا کا بچہ لائے کہ یہ مجھے کسی نے دیا ہے اسے بھی قالو کے ساتھ رکھ لو۔
چڑیا چونکہ کافی بڑی تھی خود کھا پی بھی سکتی تھی اور تھوڑا تھوڑا اڑ بھی لیتی تھی تو وہ یہاں آ کر بہت پریشان رہتی تھی۔ نا کچھ کھاتی تھی نا پیتی تھی بس خاموشی سے پنجرے میں اڑ اڑ کر باہر نکلنے کا رستہ ڈھونڈ تی رہتی۔ مگر اس کے آ جانے سے قالو بہت خوش ہو گیا تھا۔ قالو پورا پورا دن چڑیا کو بلانے کی ہر ممکن سعی کرتا رہتا اور اس کے ساتھ جڑ کر بیٹھتا مگر چڑیا اس کی نا تو کوئی بات سنتی نا اسے ساتھ بیٹھنے دیتی بس خاموشی سے باہر نکلنے کا راستہ ڈھونڈتی رہتی۔
خیر اس طرح قالو کو ایک مشغلہ مل گیا تھا اور وہ اکیلے پن کی وجہ سے پنجرے کو ٹکر مار مار کر چونچ زخمی کرنے سے باز آیا۔ ایک رات بلی نے ان کے پنجرے پر حملہ کر دیا مگر والد صاحب کی آنکھ کھل گئی اور ان کو بچا لیا۔مگرپھر ایک دن بلی نے انتہائی خاموشی سے حملہ کیا اور پنجرے کی چھت میں لوہے کی جالی کو موڑ کر اتنا سوراخ کرنے میں کامیاب ہو گئی جس سے اس کا ہاتھ اندر جا سکے۔
اس نے ہاتھ اندرکر کے پنجہ مارا تو چڑیا کا پر اس کے ہاتھ میں آگیا۔ والد صاحب کی آنکھ کھل گئی اور بلی کو بھگایا اور دیکھا تو دونوں بچے محفوظ تھے۔ صبح روشنی میں دیکھا تو پتا چلاکہ جہاں بلی نے پنجہ مارا تھا چڑیا کا وہ پورا بازو ہی ٹوٹ چکا ہے اورلٹک رہا ہے۔ دیکھ کر دل منہ کو آیا اس معصوم اور بے زبان کی اس قدر تکلیف پردل خون کے آنسو رویا مگر کیا کیا جاسکتا تھا؟ اس واقع کے چند روز بعد چڑیا اس زخم کی تاب نا لاتے ہوئے مر گئی۔
قالو ایک بارپھراکیلا ہو گیا۔ اور جب وہ پنجرے میں ہوتا تو ٹکرے مار مار کر چونچ زخمی کر لیتا مگر جب اسے باہر نکالتے تو خوش ہوکر ہمارے درمیان کھیلتا رہتا۔اور معصوم شرارتوں اور نئی نئی حرکتوں سے ہمیں خوش کرتا رہتا۔ یونہی 6،7 ماہ گزر گئے اور قالو مکمل بلبل بن گیا۔اب وہ با آسانی اڑ لیتا تھا۔ نہاتا بہت شوق سے تھا شدید سردی میں بھی جہاں پانی نظر آتا نہانا شروع کر دیتا۔
جب اسے پیاس لگتی تو سیدھا اڑتا ہوا سینک کی ٹونٹی پر جا بیٹھتا اور پھر شور مچاتا کہ آ کر ٹونٹی کھولو اب مجھے پانی پینا ہے۔ اس کی اس حرکت سے ہم سب بہت خوش ہوتے۔ ہمارے گھر کے نزدیک ایک درخت پر کچھ بلبل رہتے تھے قالو کی ان سے دوستی ہو گئی اب وہ ہر روز دن کو اس درخت کے بلبل سے ملنے چلا جاتا اور شام کو مغرب سے پہلے لوٹ آتا دسمبر کئی ایک شام وہ گھر واپس نا آیا ہم سب بہت پریشان ہوئے کہ کہیں اس کے ساتھ کوئی حادثہ نا پیش آ گیا ہو۔
مگر صبح صبح روشنی ہوتے ہی قالو کی آواز چھت سے آنے لگی ہم سب بھاگ کر چھت پر گئے تو واقعی وہ واپس آ چکا تھا گمان غالب ہے کہ اس شام اسے دیر ہو گئی ہو گی اور اندھیرے میں گھر کا رستہ بھول گیا ہو گا مگر روشنی ہوتے ہی چوہ گھر واپس آ گیا۔ ایک دو بار پھر ایسے ہی ہوا نگر وہ صبح ہوتے ہی واپس آ جتا۔ امتحانات سے ایک ہفتہ قبل میری طبیعت بہت خراب ہو گئی تو میں گھر چلی گئی قالو بہت خوش ہوا اور خوشی سے میرے پاس آ گیا اور میرے ساتھ اور میری چیزوں کے ساتھ کھیلنے لگ گیا۔
مما نے بتایا کہ آج یہ صبح کا باہر بھی نہیں گیا شاید اسے پتا چل گیا تھا کہ تم نے آج گھر آنا۔ اور اس سے پہلے تمہاری پھپھو کے آنے پر بھی یہ اسی طرح خوشی کا اظہار کر چکا ہے۔پھر میں ہوسٹل لوٹ آئی کیونکہ امتحانات میں بمشکل چنددن رہ گئے تھے امتحان شروع ہوئے میری طبیعت ابھی بھی پوری طرح ٹھیک نہیں ہوئی تھئی مجھے گھر بہت یاد آتا تھا۔ جیسے تیسے کر کے امتحانات ختم ہوئے آخری پیپر والی رات میں نے خواب دیکھا جس میں اشارہ تھا کہ ضرور قالو کے ساتھ کچھ ہو گیا ہے۔
خیر میں گھر کے لئے روانہ ہوئی اور قالو کے لیے کچھ کھانے کی چیزیں خریدیں۔ گھر جاتے ہی پہلے قالو کاپوچھا۔ نا جانے کیوں مجھے اس کی آواز آ رہی تھی مگر کہیں نظر نہیں آ رہا تھا مما نے بتایا کہ قالو تو ہفتہ ہو گیا اس دن شام کو گھر واپس نہیں آیا۔خدا جانے اس پر کیا گزری ہمیں کچھ معلوم نہیں۔ مگر اس کے جانے سے ہم سب پر جو گزری وہ ہم ہی جانتے ہیں۔
اب ہمیں کبھی کبھی قالو کی آواز سنائی دیتی ہے اور ایسے معلوم ہوتا ہے کہ وہ ادھر کمرے میں ہی ہو گا ڈریسنگ ٹیبل پر یا شوکیس پر یا کھونٹی پر بیٹھا معصومیت سے کھیل رہا ہو گا اور ابھی آ کر واکد صاحب کے کندھے پر بیٹھ جائے گا۔ مگر وہ نہیں۔۔۔۔اب مجھے جہاں بھی یونیورسٹی ہوسٹل یا کہیں بھی کوئی بلبل بیٹھاہوانظر آئے مجھے وہ قالو ہی لگتا ہے ہاں مگر اس کی آنکھوں میں قالو کی طرح شناسائی نہیں بلکہ اجنبیت ہوتی ہے اور میرے نزدیک جانے سیوہ بے پروائی سے اڑ جاتا ہے۔

Browse More Urdu Literature Articles