Khwahish - Article No. 2065

Khwahish

خواہش - تحریر نمبر 2065

ہماری یہ خواہش تواس وقت خواہش ہی رہ گئی جب ہمیں پڑھانے کو ایسی جماعت دی گئی جو اول تو پرنسپل کی بغل میں نکلی اور دوئم کھڑکیوں کے ٹوٹا ہونے کے سبب کمرہ جماعت کے تمام مناظر بھی پورے سکول کے سامنے روز روشن کی طرح عیاں تھے

Ahmad khan lound احمد خان لنڈ پیر 3 جون 2019

کہا جاتا ہے کہ مومن ایک سوراخ سے باربار نہیں ڈسا جاتا ،اب ہم نہ تو خود کو مومن کہنے کی حالت میں ہیں اوربار ہاڈسے جانے کے باوجود نہ کوئی عذر بیان کرنے کے قابل ہیں ،زمانہ قدیم میں شرفاء قسم کے افراد درس وتدریس سے وابستہ تھے لیکن اب ہم جیسوں کے آنے سے تو اس شعبہ کا خدا ہی ہوحافظ ہے۔ اب قارعین ہمیں ہی دیکھ لیجیے ہم بھی استاد کہلانے لگے ہیں اور ہمارے گرد بھی طلبہ کا ایک حلقہ ہمہ تن گوش ہوکر ہمارے علم سے اپنی پیاس بجھانا چاہتا ہے،ہم جو بچپن سے ہی نکمے واقع ہوئے تھے اور روزانہ کمرہ جماعت میں کبھی دیر سے تشریف آوری پر تو کبھی کام یاد نہ کرنے پر کان پکڑا کرتے تھے ۔
ہمارے تو دن کا آغازبھی کان پکڑنے پر ہوتا اور اختتام بھی کان پکڑنے پر ہوتاتھا۔ پہلے نصف زندگی ہم نے اساتذہ سے مار کھانے پر صرف کی اور زمانہ طالب علمی میں ہی ان چکروں میں رہے کہ کسی طرح جلد از جلد اس نظام سے چھٹکارا پایا جائے،لیکن ڈنڈے کھاتے ہم راہ فرار اختیار کرنے کی بجائے خود میدان میں کود پڑے ۔

(جاری ہے)

اپنی پہلی کلاس کو پڑھانے سے قبل ہم نے دل میں خوب تہیہ کیاکہ آج تو ہمارے پاس نادر موقع ہوگا اپنا بدلہ لینے کے لیے ،آج ہم اس کمرہ جماعت میں خوب شان ِبے نیازی سے داخل ہونگے جہاں زمانہ طالب علمی میں جانے سے قبل کھبی ہم سر درد تو کھبی پیٹ درد کی آڑ لیا کرتے تھے لیکن آج کسی کمرہ جماعت میں ٹانگ پر ٹانگ چڑھا کر بچوں کی دل کھول کر پھینٹی لگائیں گے اور انھیں کان پکڑ وا کر اپنے بچپن کی ازلی خواہش پوری کریں گیں۔

ہماری یہ خواہش تواس وقت خواہش ہی رہ گئی جب ہمیں پڑھانے کو ایسی جماعت دی گئی جو اول تو پرنسپل کی بغل میں نکلی اور دوئم کھڑکیوں کے ٹوٹا ہونے کے سبب کمرہ جماعت کے تمام مناظر بھی پورے سکول کے سامنے روز روشن کی طرح عیاں تھے،کمرہ جماعت میں ہمارے سامعین ہشتم جماعت کے طلباء تھے، جن میں سے چند تو شادی شدہ حضرات بھی تھے اور جسمانی لحاظ سے بھی ہم سے دوگنا صحت کے حامل تھے۔
کمرہ جماعت میں یہ حالت زار دیکھ کر اول تو ہم پر لرزہ طاری ہوگیا اور ہمارابچوں کو اپنی مرضی سے مرغا بنانے کا خواب محل چکنا چور ہو کر رہ گیا،جیسے تیسے کر کے ہم نے اپنا پہلا روز گزاراا ور دوسرے روز کے لیے سر جوڑ کر ایک دھواں دار انگریزی زبان میں تقریر تیار کی اب ایک اورآفت بھی آن پڑی ،ہم جونہی کمرہ جماعت میں دا خل ہوئے اول تو اپنے سامعین کوغائب پایا ،رفتہ رفتہ چند حضرات کی آمد شروع ہوئی اور تعداد کم ہونے کے سبب پرنسپل موصوف نے حکم جاری کیاکہ ٹیچر صاحبہ کی غیر حاضری کے سبب آج زنانہ سیکشن کی نگہداشت بھی ہمارے حوالے ہے اور دونوں جماعتوں کو باہم ملا کرپڑھانا ہماری ذمہ داری ہے۔
ہمارے حکم نامے پرچند طالبات صاحبہ کمرہ جماعت میں وارد ہوئیں اور اپنی نشست پر دراز ہوتے ہی باہمی زبان درازی شروع کردی ،ہماری مداخلت پر تو ایک موصوفہ نے رونا تک شروع کر دیا،موصوفہ کو روتا چھوڑ کر ہم نے تقریر جھاڑنے کا مخصم ارادہ کر لیا اور اپنی تقریر شروع کی"Dear student as you know that" ابھی ہم نے نصف سطر بھی مکمل نہ کی تھی کہ پھر سے زبان درازی کا سلسلہ شروع ہو گیا اور اب کی مرتبہ نشست وجہ تنازعہ بنی ہوئی تھی،ہماری مداخلت پر خدا خدا کرکے تنازعہ حل ہو اور ہم نے پھر اپنی تقریر پر لوٹنا چاہا لیکن پھر طالبات کی لڑائی آڑے گئی اور غرضیکہ اپنی بھر پور کوشش کے باوجود بھی تقریر مکمل نہ کرسکے اوراس روز ہم نے بطورمنصف بن کروقت گزارا ۔
اگلے کئی روز بھی ہم طلباء کی ڈنڈے سے پٹائی کی خواہش کی تکمیل میں رہے لیکن ناکام رہے اور بالا آخر ہم نے اپنے بچپن کی خواہش کو قربان کرتے ہوئے ا پنے کمرہ جماعت میں ایک چارٹ چسپاں کردیا "مار نہیں پیار"۔شاید میاں غالب نے بھی کچھ یوں درست ہی فرمایا تھا کہ ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے بہت نکلے میرے ارمان مگر کم نکلے

Browse More Urdu Literature Articles