Kuch Din Yahn Raho,theek Ho Jaogy - Article No. 2061

Kuch Din Yahn Raho,theek Ho Jaogy

کچھ دن یہاں رہو،۔۔۔ٹھیک ہو جاؤ گے۔۔۔!! - تحریر نمبر 2061

اچھا ہے تو خوش خطی کے نمبر بھی مل جاتے تھے اور اس طرح ہم پاس ہوجاتے تھے۔سرکنڈے کے قلم ،دوپیسے کی روشنائی سے لفظ کی اچھی سے اچھی شکل بنانے کی مشق ہمیں اِسی درس گاہ( مدرسہ نظام العلوم) میں کرائی گئی تھی ،

Nadeem Siddiqui ندیم صدیقی ہفتہ 1 جون 2019

اصحاب کا مجمع ہے حضورؐ بہ نفسِ نفیس موجود ہیں،کسی دوسرے مقام سے کوئی آتا ہے اور وہ رسول کریم ؐ سے ملنا چاہتا ہے مگر اس مجمع میں جس طرح عام آدمی ہے اُنہی میں رسول کریمؐ بھی ہیں ، آنے والے کا پہچاننا مشکل ہو رہا ہے کہ اس مجمع میں محمدؐ( رسول اللہ )کون ہیں۔؟ اس کے استفسار پررسولِ کریمؐ کی نشاندہی کی جاتی ہے، یہ عَالَم تھا رسول کریمﷺ کی سادگی کا۔
۔۔ اسی طرح آسمان نے یہ بھی دیکھا ہےکہ کسی سفر میں خلیفہِ دوم حضرتِ عمر فاروق ؓ اونٹ کی نکیل تھامے چل رہے ہیں اور اُن کا غلام اونٹ پر بیٹھا ہوا ہے۔ کوئی شخص رات کے وقت اسلامی حاکم کے ذاتی کام سے حاضر ہوتا ہے توآنے والے کودیکھتے ہی چراغ بجھا دِیا جاتا ہے کہ’’ چراغ تو سرکاری تیل سے جل رہا ہے اور یہ آدمی میرے ذاتی کام سے آیا ہے۔

(جاری ہے)

‘‘۔

۔۔ اوائل ِاسلام سےایک مدت تک مسلمانوں کی یہی سادگی رہی اور اس سادگی نے لوگوں کو متاثر بھی کیا بلکہ دیکھا جائے تو اس طرح کے عوامل ہی نے اسلام کے فروغ میں بڑا کردار اداکیا۔ آج کے بظاہر اسلامی قائدین کااکثرطرزِ عمل اور وضع قطع امرا سے کم نہیں۔ ایک مشہور قول ہے کہ انتہائی غربت اور اِنتہائی خوشحالی(مالداری) دونوں میں ایمان کے لیے خطرات ہیں۔
ایک مصرع بھی مذکورہے: افلاس میں ایماں ہے، ایمان کا دشمن بھی آپ نےیہ بھی پڑھا ہوگا کہ رسول کریمؐ دُعا فرماتے تھے کہ ’’ اے اللہ! مجھے مسکینوں کے ساتھ اٹھانا۔‘‘(مفہوم) ایک بار دیو بند جانے کا اتفاق ہوا ، برادرم نواز دیوبندی نے مدرسے کا معائنہ کر وایا۔ کئی کلاسِس دیکھیں، اُن کلاسس کی تقریباً وہی صورت تھی جو ہماری طالب علمی کے زمانے میں مدرسہ نظام العلوم(کرنیل گنج۔
کانپور) کی تھی۔ ٹاٹ کی پٹّی بچھی ہوتی تھی اور اس پر تمام طالب علم بیٹھتے تھے ، لکڑی کی تختی، لکڑی کا قلم اور دوات۔۔۔ نصف صدی گزرنے کے بعد بھی ہم بھول نہیں سکے۔ ہائے ہمارا وہ لکڑی (سرکنڈے) کا قلم۔۔۔ !! دارالعلوم (دیو بند) کے جن اساتذہ کو دیکھا تھا، اُن میں سے اکثر ایسے تھے کہ انھیں دیکھ کر لگتا تھا کہ رسول کریمؐ کے صحابہ ایسے ہی سادہ اور مسکین رہے ہوںگے۔
!! دارالعلوم ہی کی ایک کلاس کے اُستاد تو اب تک آنکھوں میں تصویر بنے ہوئے ہیں ، انھیں دیکھنے کے بعد محسوس ہوا تھا کہ برسہا برس سے ان کے ہونٹ تبسم کی ایک لکیر سے بھی محروم ہیں۔ اُن کا لباس چہرے کا تاثراور گہری اُداسی اُن کے باطن کی مظہرتھی۔ ہم نے اپنے مدرسہ نظام العلوم(کرنیل گنج۔ کانپور) کا ذکر بھی کیا ہےساٹھ برس اُدھر کا زمانہ ہے جب جمیل الدین صاحب ،ہیڈ ماسٹر ہوتے تھے نہایت نحیف و کمزور شخص تھے مگر اُن کا پڑھانا اور ان کے سبق، آدھی صدی گزر گئی،ہم بھولے نہیں۔
اُن کی جسمانی کمزوری کاعَالَم یہ تھا کہ جب کسی طالب علم سے وہ ناراض ہوتے اور اس کی سرزنش کرتے تو بیٹھے بیٹھے اپنی چَھڑی کے نچلے حصے کو ہاتھ میں پکڑتے اور طالب علم کے پیروں کے انگوٹھے پر چھڑی کے موٹھ سےضرب لگانے کی کوشش کرتے،ظاہر ہے، بیٹھے بیٹھے طالب علم بچنے کی کوشش میں پیچھے کھسکتا جاتا ، بالآخر کھسکتے کھسکتے دِیوار سے لگ جاتا تھا ۔
۔۔ یہ سرزنش ہوتی تو بڑی اذیت ناک تھی مگر اس کا نتیجہ یہ نکلتا تھا کہ طالب علم کو دوسرے دن وہ سبق کسی طور یاد ہو ہی جاتا تھا۔ ماسٹر افضل حسین تو ابھی حیات ہیں، اُس زمانے میںخوش خطی کی بڑی اہمیت تھی، امتحان میں ہم کسی سوال کا جواب اگر غلط لکھتے اور ہمارا خط ( رائٹنگ) اچھا ہے تو خوش خطی کے نمبر بھی مل جاتے تھے اور اس طرح ہم پاس ہوجاتے تھے۔
سرکنڈے کے قلم ،دوپیسے کی روشنائی سے لفظ کی اچھی سے اچھی شکل بنانے کی مشق ہمیں اِسی درس گاہ( مدرسہ نظام العلوم) میں کرائی گئی تھی ، سرکنڈے کا وہ قلم جس کا قَط بنانے کی ہمیں مشق تھی اِس وقت بھی یاد آتا ہے کہ رات بھر پانی میں اُس کو بھگونا، صبح اُس کو چاقو سے تراشنا اور پھراُس قلم سے لفظ بناکر جو خوشی حاصل ہوتی تھی ، بعد میں شیفر اور پارکر جیسے قلم سے بھی کچھ لکھ کر میسر نہیں ہوئی ۔
یہ منظر تو اب بھی آنکھوں میں ہے کہ ہم اپنے درجے (کلاس روم )میں بیٹھے لکھ رہے ہیں ماسٹر افضل حسین کی اچانک نظر پڑتی ہے اوروہ گویا ہوتے ہیں: ’’میاں! ماحول کا لام ایسے ہی لکھا جاتا ہے ،۔۔۔ لاحول ہے تمہاری رائٹنگ پر‘‘ اور پھر افضل صاحب کا غصے میں ہماری گُدّی پر کا ہاتھ مارنا اور پھر قلم لے کر ’ماحول‘ لکھتے ہوئے اُن کا یہ درس نہیں بھولتا : ’’میاں ! ’ل‘ اوپر سے ذرا باریک اور پھر قدرے موٹا کرتے ہوئے خم بنائیے اور پھر نوک پر اس کی شکل تمام ہونی چاہیے۔
‘‘ افضلؔ صاحب کتابت نہیں سکھاتے تھے، اُردو پڑھاتے تھے ہمیں اُردو کی جو شُد بُد ہے اس کی بنیاد کے نیچے یہی افضلیت آج بھی محسوس ہوتی ہے، البتہ اب کمپیوٹر نے لکھنے ہی سے محروم کر رکھا ہے۔ مدرسہ نظام العلوم کے ہیڈ ماسٹر جمیل الدین کی سختی بھی یاد آتی ہے تو اب سوچتے ہیں کہ وہ اگر سخت نہ ہوتے تو ہمارےہاں علم کی جوکچھ کرنیں ہیں،وہ نہ ہوتیں۔
اللہ جمیل الدین صاحب کی مغفرت کرے ۔آمین، ہم نےاُن کے تن پراچھے کپڑے کبھی نہیں دیکھے، سَر پر ٹوپی ، سادے سے کرتے پر (سردی کے موسم میں)معمولی سی شیروانی نیچے شرعی شلوار اُن کا عام لباس تھا مگر اُنہوں نےجو کچھ پڑھا دِیاوہ نور تھا نور!! ۔۔۔ صبح ، ناشتہ تب تک نہیں ملتا تھا جب تک ہم قرآن کریم کے سبق نہ پڑھ لیں۔ کالپی شریف والے نا نا حافظ شمس الدین نے جس طرح قرآن ِکریم کے جو لفظ پڑھا دِیے ،سچ یہ ہے کہ اسی سے ہماری اُردو بھی (کچھ) مجلا ہے۔
۔۔ جن اساتذہ کا اوپر ذکر ہوا ہے، انھیں تدریس کے عوض (تنخواہ کے نام پر)جو کچھ ملتا تھا ، اب اُستاد تو رہے نہیں البتہ جو ٹیچر ہیں اُتنی رقم تو یہ ٹیچر حضرات اپنے بچوں کو جیب خرچ کےلیے دیدیتے ہیں مگر یہ لوگ علم کی کتنی خدمت کر رہے ہیں اس کا تذکرہ غیر ضروری ہوگا کہ کون سنجیدہ شخص نہیں جانتا کہ وہ پڑھاتے ہیں یا ۔۔۔!! عزیزم ڈاکٹر ظہیر انصاری کو جب کسی لفظ یا کسی عبارت پر ٹوکا تو یہی جواب ملا کہ’’ہمارے اُستاد نے تو یہ بتایا ہی نہیں ۔
‘‘۔۔۔ عربی زبان کا ایک لفظ ہے ۔۔۔ وَہن۔۔۔ وہ لوگ جو حدیث کا شغف رکھتے ہیں، وہ یقیناً اس کی معنویت سے واقف ہونگے کہ حضورﷺ کے تعلق سےعلما ئے حق فرماتے ہیں کہ وہؐ اکثر کہا کرتے تھے کہ مجھے ڈر ہے کہ میری امت کے لوگ ایک دَور میں۔۔ وہن۔۔ میں مبتلا ہوجائینگے۔۔۔ اب علم کے شعبے دَر شعبے بنے ہوئے ہیں اور ہر شعبے کے ماہرین بھی خاصی تعداد میں ہیں ، ہر موضوع پر کتابیں بھی لکھی جارہی ہیں، جو اشاعت کے زیورسےآراستہ بھی ہو رہی ہیں مگر۔
۔ علم۔۔ ہے کہ ہم سے پردہ اختیار کرتا جارہا ہے البتہ ہمی ہیں جو۔۔۔ معلومات۔۔۔ کے دریا بہانے پر تُلے ہوئے ہیں اور کہتے تو نہیں مگر دل ہی دل میں اپنے آپ کو ۔۔ علامہ۔۔ سے کم نہیں سمجھتے۔!! ۔۔۔پرانوں کی زبان سے سُنا ہے کہ ایک بار وزیراعظم نہرو کسی پاگل خانےکے معائنے کےلیے پہنچے تو صدردروازے ہی پر بیٹھے ہوئے ایک ’نیک بخت‘ نے انھیں ٹوکا کہ ’’تم کون ہو اور یہاں ۔
۔۔!! ‘‘ نہرو سے جواب ملا:’’ مجھے نہیں جانتے، میں اس ملک کا وزیر اعظم ہوں۔‘‘ ٹوکنے والے پاگل نے ہنستے ہوئے کہا: ’’اچھا اچھا۔۔۔ کچھ دن یہاں رہو ٹھیک ہوجاؤگے کہ جب مَیں یہاں آیا تھا تو میں بھی یہی کہہ رہا تھا کہ ۔۔ میں اس ملک کا وزیر اعظم ہوں۔‘‘ عمر کی اس منزل پر پہنچ کر احساس ہوا کہ یہ دُنیا ایک پاگل خانہ ہی تو ہے اور ہم، لوگوں کو ٹوک رہے ہیں کہ ’’تم کون ہو اور یہاں۔
۔۔!! ‘‘ ۔۔۔اور لفظ’ علامہ‘ کے ایک معنیٰ ہمیں پکارتے رہتے ہیں کہ۔۔۔ ’’ علّامہ، حرافہ کو بھی کہتے تھے۔!!‘‘ البتہ نہرو کے ٹوکنے والوں نے اس کے معنیٰ بدل دِیے ہیں تو ’’ ندیم ! ذرا بتائیےکہ ۔۔ آپ علّامہ ہیں۔۔!!؟‘‘ ایک شعر بھی ملاحظہ کرلیں: ’’زالِ دُنیا ہے عجب طرح کی علامۂ دہر مردِ دیںدار کو بھی دہریہ کر دیتی ہے‘‘ اس شعر میں’ علامۂ دہر‘ کی ترکیب اور اس کی معنویت توجہ طلب ہے، یہ شعر ابراہیم ذوق ؔ دہلوی کی اُس غزل کا ہے، جس کا یہ مطلع مشہور ہے

Browse More Urdu Literature Articles