Mein Apni Walida Ko Kabhi Sach Nahi Bata Sakta - Article No. 2094

Mein Apni Walida Ko Kabhi Sach Nahi Bata Sakta

میں اپنی والدہ کو کبھی سچ نہیں بتا سکا - تحریر نمبر 2094

میں انہیں کبھی نہیں بتا سکا کہ یہ پچیس، تیس ہزار کی تنخواہ پر رکھے چند بچے ہیں جن کی نوکری ہمیں گالیاں دینے پر لگی ہوئی ہے۔آخری بات میں انہیں اس لیئے بھی نہیں بتا سکا کہ اگر انہیں ان بچوں کے ذریعہ رزق کے بارے میں پتا چلا تو انہیں یہ فکرلاحق ہو جائے گی کہ اگر انکی نوکری چلی گئی، انہوں نے گالیاں دینا بند کر دیں تو انکے گھر کا خرچ کیسے چلے گا؟

Ammar Masood عمار مسعود ہفتہ 13 جولائی 2019

میرے والدہ کا پھر مجھے فون آیا ہے۔ فون کی بابت بتانے سے پہلے ضروری ہے کہ میں اپنی والدہ کا تعارف کروا دوں۔ میرے والد سے تو سب واقف ہیں مگر والدہ کو کم لوگ جانتے ہیں۔میری والدہ کی عمر چوراسی برس ہے۔ ساٹھ کی دہائی میں بہت کم ایسی خواتین تھیں جنہوں نے ڈبل ایم اے کیا۔ امی نے پہلے فارسی اور پھراردو ادب میں ایم اے کیا۔ اس کے بعد وہ فارسی کی پروفیسر ہو گئیں۔
تیس سال انہوں نے گورنمنٹ کالج میں بچیوں کو فارسی پڑھائی۔ فلسفہ مولانا روم، سعدی کی حکایتیں،غالب کا فارسی کلام، اقبال شناسی ہم نے ان سے سیکھی۔ حافظ شیرازی، نظیری، فردوسی، مومن، میر تقی میر، سودا اور ذوق کے بارے میں بھی انہوں نے ہی بتایا۔ ہمیں بچپن میں اگر ڈانٹ پڑی تو کسی لفظ کے غلط تلفظ پر، شعرغلط کہنے پر یا لفظ کی غلط املاء پر پڑی۔

(جاری ہے)

آج بھی اپنی تحریر انہیں دکھاتے ہوئے خدشہ ہوتا ہے کہ کسی جملے کی بنت پر یا کسی ترکیب کے غلط استعمال پر سرزنش نہ ہو جائے۔ میرے والد اور والدہ کی ملاقات اورینٹل کالج میں انیس سو باسٹھ میں ایم اے فارسی کے زمانے میں ہوئی۔ اس زمانے میں وٹس ایپ کی سہولت میسر نہیں تھی اس لِئے خط لکھے جاتے تھے۔ میری والدہ نے میرے والد کے وہ خط بہت سنبھال کر رکھے اور شادی کی پچاسیوں سالگرہ پر انکو کتابی شکل " انور مسعود کے خط صدیقہ انور کے نام" کے عنوان سے چھپوا دیا۔
کچھ لوگ معترض ہوئے کہ یہ بہت ذاتی سی باتیں ہیں انکو چھپوانا معیوب ہے لیکن امی کی دلیل تھی کہ محبت کرنا ہر شخص کا حق ہے۔ شرط صرف اتنی ہے کہ محبت میں احترام اور شائستگی ہونی چاہیے۔ اس کتاب سے یہی سبق نوجوان بچوں کو دینا مقصود ہے۔ میرے والد کا اسی زمانے کاشعر ہے قسم خدا کی محبت نہیں عقیدت ہے دیار دل میں بڑا احترام ہے تیرا میرے والدین کی زندگی کا بہت سا عرصہ عسرت میں گذرا۔
بقول میری والدہ کے "میری جوانی کے دن تو تمہارے والد کے کپڑے رفو کرتے گذری" دو پروفیسروں کی اس زمانے میں تنخواہ ہی کیا بھی؟ گھر میں کل چودہ افراد تھے۔ امی کا کالج نوکلومیٹر کے فاصلے پر تھا۔ تانگے والا آٹھ آنے کرایہ مانگتاتوامی یہ سفر پیدل طے کرتیں کہ آٹھ آنے بچ جائیں تو گھرکے لیئے کھانے کی کوئی چیز خرید لیں۔ میرے والدین کی شادی کوچون برس ہوگئے اوران برسوں میں انکی روز ہی ایک موضوع پر بحث ہوتی ہے کہ غالب بڑا شاعر تھا یا اقبال۔
میرے والد اقبال کے عشق میں گرفتار اور والدہ غالب کی دلدادہ۔ یہ نہ ختم ہونے والی بحث سنتے ہمارا بچپن گذرا۔ انیس سو ستانوے میں امی کو کینسرہوگیا۔ نوبت یہاں تک پہنچی کہ ڈاکٹرز نے جواب دے دیا اوروہ تین دن تک کومے کی حالت میں رہیں۔ اللہ نے اس مقام سے شفا دی۔ کینسر سے صحت یابی کے بعد ان میں ایک تبدیلی آئی کہ ان کا رجحان مذہب کی طرف بہت ہو گیا۔
انہوں نے محلے کی خواتین کو قران کریم باترجمہ پڑھانے کا فیصلہ کیا۔ استاد تووہ شروع سے تھیں۔ جلد ہی دور دور سے خواتین ان سے قران کا درس لینے آنا شروع ہو گئیں۔ اب انکا اوڑھنا بچھونا درس قران ہے۔ کسی دن ناسازی طبع کی وجہ سے درس نہ ہوسکے توسارا دن بے چین رہتی ہیں۔ انکا تکیہ کلام " شکر ہے، شکر ہے"حالات جیسے بھی ہو ں وہ شکر ادا کرنے میں ایک لمحے کی غفلت نہیں برتتیں۔
چن چن کر لوگوں کے لیئے دعائیں کرنا انکامحبوب مشغلہ ہے۔اب انکے ہاتھ رعشے سے کانپتے ہیں چائے کا کپ دونوں ہاتھوں سے پکڑنے پر بھی چھلک جاتا ہے مگرشکر کا کلمہ اسی طرح جاری رہتا ہے۔ میری بڑی ہمشیرہ فارسی کی پروفیسر ہیں اورچھوٹی بہن سماجی موضوعات پربلاگ لکھتی ہے۔ خواجہ سراؤں کی المناک زندگی پر ان کا لکھابلاگ بہت وائرل ہوا حتی کی امریکہ کی یونیورسٹیوں میں بھی پڑھایا گیا۔
میری بڑی بھابھی امجد اسلام امجد کی صاحبزادی ہیں پی ایچ ڈی کر رہی ہیں۔برصغیر میں خواتین کے مزاحمتی ادب پر انکا کام بہت قابل ذکر ہے۔ میری اہلیہ شنیلہ عمارصحافی ہیں اور کئی انٹرنیشنل فورمز پر سیاسی موضوعات پر بڑے جی دارکام لکھتی ہیں۔ میرا چھوٹا بھائی میری والدہ کے ساتھ رہتا ہے وہ ٹوئیٹر اور فیس بک پر جو گالم گلوچ، دھمکیاں اور غداری کے فتوے مجھ پر لگتے ہیں ان سے میری والدہ کو بہت نیک نیتی سے آگاہ کرتا ہے۔
امی گھبرا کر مجھے فون کرتیں ہیں اور کہتی ہیں۔ "بیٹا ہم نے ساری زندگی عزت ہی کمائی ہے، نہ کسی نے گالی دی، نہ کسی نے جیل بھیجنے کی دھمکی دی نہ غدار کہا نہ مار ڈالنے کی دھمکی دی، نہ کسی نے رشوت کا الزام لگایا، نہ کسی کو ماں بہن کی گالیاں پڑیں۔ تم یہ سیاست وغیرہ پر لکھناچھوڑ دو، ٹی وی پروگراموں میں جاہلوں سے بحث کرنا چھوڑدو، نوکری تم کو نہیں ملتی، کاروبار تم سے نہیں ہوتا، لکھنے لکھانے سے بھی کچھ نہیں بنتا تو پھر یہ بدنامی کس لیئے؟ تم توکہانیاں لکھا کرتے تھے تو پھر کہانیاں لکھا کرو۔
محبت کی،انسانیت کی، بھائی چارے کی"میں ہمیشہ انکی بات سن کر ہوں ہاں کر کے فون بند کر دیتا ہوں۔میں انہیں کبھی نہیں بتا سکا کہ جیسی نیکی اور پارسائی کی زندگی انہوں نے بسر کی میں ایسی زندگی بسر نہیں کر سکا،میری کتاب زیست کا ہر صفحہ خطاؤں سے آلودہ ہے،جس میں انکی تربیت کا کوئی قصور نہیں۔ میں انہیں کبھی نہیں بتا سکا کہ آج کل سچ کہنے والے ہر صحافی کو دشنام کے اس غلیظ جوہڑسے گزرنا پڑتا ہے۔
میں انہیں کبھی نہیں بتا سکا کہ اگر میں اپنے ٹوئٹر پر کلمہ طیبہ یا پاکستان کا ترانہ بھی لکھ دوں تو بھی سارے خاندان کو گالیاں پڑیں گی اس لیئے کی آج کل صحافت میں مختلف سوچنا جرم ہے، گناہ ہے۔ میں انہیں کبھی نہیں بتاسکا کہ میں اب محبت کی کہانیاں نہیں لکھ سکتا۔ سیاست کے بحر خارزار میں جو الم، جو مظالم میں نے دیکھے ہیں اسکے بعد محبت فروعی سا جزبہ لگتا ہے۔
میری والدہ کو مریم نوازبہت پسند ہیں، میں انہیں کبھی نہیں بتا سکتا کہ منڈی بہاو الدین کے جلسے والے روز مریم نواز کے بارے میں اسلامی جمہوریہ پاکستان میں ٹوئیٹرپر کیا ٹاپ ٹرینڈ تھا؟ میں انہیں کبھی نہیں بتاسکا کہ جو راہ میں نے اختیار کی اس میں مالی مشکلات تو کچھ بھی نہیں ہر لمحے جان کا خطرہ بھی موجود ہے۔ میں انہیں کبھی نہیں بتا سکا کہ بہت سے صحافی سچ بولنے کے جرم میں جان سے گئے بہت سے ماریں کھاتے رہے اور بہت سے جیل میں سڑتے رہے۔
میں انہیں کبھی نہیں بتا سکا کہ یہ گالم گلوچ سب لوگ نہیں کرتے یہ چند لوگوں کا ایک گروہ ہے جو ہرمختلف سوچ والے صحافی کی تذلیل پر مامور ہیں۔ میں انہیں کبھی نہیں بتا سکا کہ یہ پچیس، تیس ہزار کی تنخواہ پر رکھے چند بچے ہیں جن کی نوکری ہمیں گالیاں دینے پر لگی ہوئی ہے۔آخری بات میں انہیں اس لیئے بھی نہیں بتا سکا کہ اگر انہیں ان بچوں کے ذریعہ رزق کے بارے میں پتا چلا تو انہیں یہ فکرلاحق ہو جائے گی کہ اگر انکی نوکری چلی گئی، انہوں نے گالیاں دینا بند کر دیں تو انکے گھر کا خرچ کیسے چلے گا؟ پھروہ انکے رزق میں کشادگی کی دعا کریں گی اور کہیں گی"شکرہے شکر ہے دیکھو اللہ نے تمہیں کتنے بچوں کے رزق کا ذریعہ بنایا ہوا ہے۔
کتنے گھر تمہاری وجہ سے چل رہے ہیں۔ شکرہے۔ شکر ہے" ایسے میں، میں انکو سمجھا بھی نہیں پاؤں گا۔ اس لیئے کہ مائیں تو ایسی ہی ہوتِیں ہیں انکے دامن میں سب بچوں کے لیئے بس دعائیں ہی ہوتی ہیں۔

Browse More Urdu Literature Articles