Mein Column Nigaar Kaisay Bana ? - Article No. 2328

Mein Column Nigaar Kaisay Bana ?

میں کالم نگار کیسے بنا؟ - تحریر نمبر 2328

دوئم کلاس سے لے کر چہارم تک عمرو عیار کی کہانیاں، ٹارزن کی کہانیاں، ملا نصرالدین کی کہانیا ں زیر مطالعہ رہیں، پنجم میں پہنچ کر ہمدرد نونہال،آنکھ مچولی، تعلیم و تربیت اور پھول جیسے بچوں کے میگزین زیر مطالعہ آگئے ،ہفتم میں پہنچ کرباقاعدہ طور پر لکھنے کی ابتداء ماہنامہ آنکھ مچو لی میں ایڈیٹر کو خطوط لکھ کر کی

 Waheed Ahmad وحید احمد بدھ 6 مئی 2020

بارود کے بدلے ہاتھوں میں آجائے کتاب تو اچھا ہو اے کاش ہماری آنکھوں کا اکیسواں خواب تو اچھا ہو بچپن میں ایک مشترکہ خاندانی نظام میں پرورش پانے کے دوران میں نے ایک اہم بات جو نوٹ کی تھی وہ یہ تھی کہ آبائی گھر کے وسیع صحن کے کسی نہ کسی کونے میں میرے والدمرحوم، چچاعبدالستارانجم (جو پاکستان ایگری کلچر ریسرچ کونسل میں سائینٹفک آفیسربھی رہ چکے ہیں)، دادا ابو یہاں تک کہ دادی اور پردادی جان بھی کسی نہ کسی کونے میں بیٹھے ہاتھوں میں کتب و رسائل لیے ہمہ وقت پڑھنے میں مصروف رہتے تھے، یہ وہ وقت تھا جب ٹیلی ویژن کے مخصوص اوقات ہوتے تھے اور باقی وقت ٹی وی چلانے پر سیاہ و سفید جھلملاتے تارے اور کانوں کو پھاڑنے والی تیکھی آواز ہی سنائی دیتی تھی، کتب بینی کے شوق کی لت مجھے بطور خاص والد محترم سے ورثے میں ملی تھی وہ کتابوں کے مطالعہ کے رسیا تھے، ان کی ذاتی لائبریری میں سینکڑوں کتابیں موجود تھیں اس کے ساتھ ساتھ کچھ ماہانہ،سہ ماہی اور شہ ماہی رسائل و میگزین بھی ہر مہینے اس لائبریری کی وسعت میں اضافہ کرتے رہتے تھے جن میں ریڈرز ڈائجسٹ، اردو ڈائجسٹ، جاسوسی ڈائجسٹ، سسپنس ڈائجسٹ، سب رنگ ڈائجسٹ، سائنس ڈائجسٹ اور ماہ نو سر فہرست ہیں، بچپنا تھا پڑھنا نہیں آتا تھا تو ان کتب، رسائل و میگزینز سے تصویریں دیکھ کر خوش ہوا کرتا تھا۔

(جاری ہے)

مجھے لکھاری بنانے میں سب سے بنیادی اور اہم ترین کردار میرے اساتذہ کرام کا ہے، میرے ان اساتذہ کاجنہوں نے مجھے قلم پکڑنا اور لکھنا سکھایا، نرسری کے استاد محترم چوہدری محمد علی، محمد امجد، پنجم کے استاد محمد خالد جنہوں نے اردو املا کی اس قدر مشق کروائی کہ میں ثقیل سے ثقیل تر الفاظ و تراکیب کو لمحوں میں لکھ لیتا تھا، وہ ہر روز ہمیں املا کے لیے ان دیکھے الفاظ اور پیراگراف لکھواتے تھے اور کلاس کے درمیان املا کا مقابلہ کروایا کرتے تھے،جو میرے لیے صرف املا کا مقابلہ نہیں زندگی موت کا مسئلہ ہوتا تھااور مجھے املا میں ہارنا اچھا نہیں لگتا تھا اور آج انہی کے طفیل میں سینہ تانے کھڑا ہوں، ششم کے استاد منظور حسین،تطہیر الانوار،چودھری عبدالجبار مرحوم،محمد مامون مرحوم، میٹرک کے اساتذہ اشرف تبسم، محمد حسین،محمد زاہد، نذیر احمد انصاری مرحوم، محمد بوٹا مجاہد جو خود بھی ایک بہت اچھے لکھاری ہیں، ہمارے پی ای ٹی ریاض حسین جنہوں نے مجھے مقرر بنانے میں اہم کردار ادا کیا، انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی اسلام آباد کے وہ اساتذہ جن سے میں ازحد متاثر ہوا اور ان سے بہت کچھ سیکھا ان میں ڈاکٹر اے آر بلوچ جو فقہ پڑھاتے تھے اور پڑھا رہے ہوتے تو ہمیں یوں محسوس ہوتا علم کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر ہے، جس میں ہم بصد خوشی غرق ہوتے تھے ڈبکیاں کھاتے اور بے چینی سے ان کی اگلی کلاس کا انتظار کرتے، زاہد خان جنہوں نے بہت حوصلہ دیا، 9 سال بعد ان سے ملنے کا اتفاق ہوا تو میرا نام یاد تھا انہیں، کہتے آپ وحیداحمد ہو نا جس نے گوگل پر پریزینٹیشن بنائی تھی، وہ میں نے آج تک محفوظ رکھی ہوئی ہے اور طلباء وطالبات کو دوران لیکچر دکھاتا ہوں، عارف خٹک اور انعام الحق جو آجکل کوالالمپور مقیم ہیں اس کے علاوہ میرے والد مرحوم کے شاگرد رشید پی ایچ ڈی سکالر پروفیسر ڈاکٹر ابرار حسین قریشی جن سے صرف چند دن سیکھنے کو ملا لیکن جو سیکھا وہ انمٹ نقوش چھوڑ گیا ، ایم ایڈ کے استاد محترم اور ملک کے مایہ ناز کیلی گرافر اور آرٹسٹ منشاء یاد جن کے چرچے عالمی افق پر بھی ہوتے رہتے ہیں اور جو مجھ جیسے نکمے شاگرد کو قابل کہتے ہیں، محترمہ نعیم سرور جو اہل علم شخصیت ہیں اور ایم ایڈمیں مجھے ان سے پڑھنے اور بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملا ، اپنے والد محترم محمد نعیم شاہین مرحوم جو ایک انتہائی کہنہ مشق استاد، مصنف کتاب ''نوید اردو گرائمر'' اور قدآور علمی شخصیت تھے جن سے میں رسمی طور پر کبھی فیض یاب نہ ہو سکا اور غیر رسمی طور پر ایک ناخلف، ناہنجار اوربگڑے ہوئے بیٹے کے طور پر ہمیشہ ان سے دور بھاگتا رہا اور کبھی ان سے صحیح معنوں میں علم کا وجدان حاصل نہ کر پایا لیکن وہ علم کی نہ ختم ہونے والی پیاس اور لکھنے کی جوت میرے سینے میں منور کر گئے، بچپن میں حکیم محمد سعید شہید کے ہمدرد نونہال کا قاری تھا، ہمدرد نونہال نے اپنے ایک شمارے کے ساتھ آٹوگراف بک تحفتاََ ارسال کی، پہلا آٹوگراف اپنے والد مرحوم کا لیا، آٹوگراف بک وقت کی گرد میں کہیں کھو کر گم ہوگئی لیکن اپنے والد کے آٹوگراف کے الفاظ میرے دل پر ثبت ہو گئے تھے جو آج بھی من و عن مجھے ازبر ہیں، "Be a candle or a mirror, reflect the light of truth and wisdom" جس کے بارے مجھے ابھی اس وقت معلوم ہوا ہے کہ یہ آٹوگراف دراصل ایڈتھ وارٹن کے مقولے "There are two ways of spreading light: to be the candle or the mirror that reflects it" کی تضمین تھا۔
دوئم کلاس سے لے کر چہارم تک عمرو عیار کی کہانیاں، ٹارزن کی کہانیاں، ملا نصرالدین کی کہانیا ں زیر مطالعہ رہیں، پنجم میں پہنچ کر ہمدرد نونہال،آنکھ مچولی، تعلیم و تربیت اور پھول جیسے بچوں کے میگزین زیر مطالعہ آگئے ،ہفتم میں پہنچ کرباقاعدہ طور پر لکھنے کی ابتداء ماہنامہ آنکھ مچو لی میں ایڈیٹر کو خطوط لکھ کر کی،بسا اوقات میرا نام "ناقابل اشاعت خطوط " کی فہرست میں ملتا، بہت رنج و ملال ہوتا اور پھر میں اس غم و اندوہ کا یہ سارا غصہ ابو سے چوری چھپے منشی پریم چند، کرشن چندر ، راجندر سنگھ بیدی، بلونت سنگھ اور خاص طور پر سعادت حسن منٹواور عصمت چغتائی کے افسانے پڑھ کر اتارا کرتا تھا اور پھر ایک وقت ایسا آیا کہ شاید ہی آنکھ مچولی کا کوئی شمارہ ایسا ہوتا جس میں میری تحریر یا خط شائع نہ ہوا ہوتا۔
۔۔ والدنے ایک بات گٹھی میں پلا دی تھی کہ بیٹا کتابوں کو خراب ہرگز نہیں کرتے ، بعد میں اس نصیحت پر ایسا عمل پیرا ہوا کہ ضخیم کتابوں کا مطالعہ کرلیتا تھا لیکن اس پر نقطے برابر بھی نشان نہیں لگنے دیتا تھا،اورمیٹرک میں والد محترم کے انتہائی قریبی دوست غلام فرید چشتی مرحوم کی کتابوں کی دکان "چشتی بک سنٹر " سے جا کران کے بیٹے سعید الحق چشتی سے ادھار میگزین اور رسالے لے آیا کرتا تھا اور پڑھ کر واپس کردیا کرتا تھا ، وہ یہ بات جانتے تھے کہ میں کتاب کو خراب نہیں کرتا۔
میری زندگی کا سب سے شاندار لمحہ وہ تھا جب میں نے بچوں کے ایک موقر انگریزی انٹرنیشنل میگزین "The Truth International" میں اپنی ایک تحریر "Frozen Continent " کے نام سے ارسال کی ،سن 2004 کی بات ہے، اس وقت میں فرسٹ ائیر میں تھا، والد کے پاس کچھ طالبعلم ایم اے انگلش کی تیاری کرنے آتے تھے، ان کو میں نے اس تحریر کا فوٹوکاپی مسودہ دکھایاکہ میں نے اپنی یہ تحریر انٹرنیشنل انگریزی میگزین کو بھیجی ہے، وہ بہت حیران ہوئے ، انہوں نے کہا کہ ہم ایم اے انگریزی کے طالبعلم ہیں ہم نے کبھی نہیں لکھا کچھ ، تم فرسٹ ائیر میں پڑھتے ہو، چھپ جائے گی کیا؟ میں نے کہا کہ اگر ناقابل اشاعت میں بھی میرا نام آگیا تو خوش ہوجاؤں گا، اورپھر ایک دن انہی طلباء میں سے ایک طالب علم شدید گرمی میں سائیکل پر ہمارے گھر آیا،خوشی کے جذبات اس کے چہرے سے عیاں تھے، دھوپ میں کھڑے کھڑے ہی وہ اس انگریزی میگزین کا تازہ شمارہ مجھے تھماتے ہوئے بولا " وحید صاحب،مبارک ہو، آپ کی کہانی اس میگزین کی سرورق کی کہانی کے طور پر شائع ہوئی ہی" ، وہ طالبعلم اب ایک ابھرتا ہوا لکھاری ہے، آخر میں اس کا ذکر موجود ہے۔
اور پھر یوں ہوا کہ 2005 سے لے کر 2017 تک میرا لکھنے لکھانے کا سلسلہ بالکل موقوف ہوگیا۔ میرے کالم نگاری کے سفر کی باقاعدہ ابتدا ستمبر 2017 میں ہوئی اور اس کا سہرا ضلع خانیوال کے ڈسٹرکٹ انفارمیشن آفیسر محمد سلمان خالد کو جاتا ہے جنہوں نے مجھ جیسے نو آموز، بچوں کی کہانیاں لکھنے والے کے ٹوٹے پھوٹے الفاظ پڑھ کر اسے حوصلہ دلا دلا کر زبردستی کالم نگار بنادیا اور 9ستمبر 2017 کو میری زندگی کا پہلا کالم " عالمی یوم خواندگی سیمینار " کے عنوان سے اخبارات کی زینت بنا۔
یہ کالم اخبارات میں دیکھ کر میری چھوٹی بہن پھوٹ پھوٹ کر رو پڑی اور بولی کہ ابو جان اکثر مجھ سے اس خواہش کا اظہارکیا کرتے تھے کہ میرے بچوں میں سے کوئی ایک تو ہو جو اخبارات میں کالم لکھے، آج اگر وہ زندہ ہوتے تو کس قدر خوش ہوتے۔ کالم نگاری کے ابتدائی سفر میں میرا بھرپور ساتھ محکمہ اطلاعات کے محمد اکرام نے دیا،انہوں نے مجھے کالم نگاری کے رموز و اوقاف سے روشناس کروایا اور ایک ایسا سبق مجھے سکھایا جو شاید زندگی بھر نہ سیکھ پاتا ''وحید بیٹا، کبھی اپنے قلم کو استعمال کرتے ہوئے کسی پر تنقید مت کرنا اور ہمیشہ مثبت انداز تحریر اپنانا''، اس کے علاوہ محمد اکمل سیال جو ہر وقت میری تعریفوں کے پل باندھ باندھ کر مجھے ایک اچھا لکھاری ثابت کرتے رہتے تھے اور پتہ ہی نہیں چلا اکمل بھائی کی تعریف ،حوصلے اور داد کی وجہ سے اپنے آپ کو چھوٹا سا بے نام لکھاری سمجھنے والا سچ مچ ایک ادنیٰ سا ہی سہی، پر کالم نگار کہلوانے والوں کی صف میں آن شامل ہوا ۔
کالم نگاری کے اس سفر میں میں بالواسطہ یا بلاواسطہ طور پر جن شخصیات سے میں ازحد متاثر ہوا، جن کی صحبت میں بیٹھا، جن کی تحاریر پڑھیں، اور جن کو میں سوشل میڈیا اور فیس بک پر فالو کرتا ہوں یہ میری ادبی و تحریری زندگی میں ایک انقلاب لے کر آئے اور میری تحریروں میں یہ نکھار لانے میں ان لوگوں کی حیثیت ایک مینارہ نور جیسی ہے۔ ان لوگوں سے میں نے آمنے سامنے بہت کچھ سیکھا، کچھ ایسے ہیں جن کو میں نے فیس بک پر دیکھا ہے ان کی تحاریرسے بے پناہ سیکھنے کو ملا، ان سب لوگوں کی وجہ سے ہی میں آج اس مقام پر ہوں۔
اپنی اس تحریر کو میں خصوصاً اپنے حلقہ یارانِ فیس بک میں شامل شعبہ صحافت سے منسلک تمام صحافی حضرات کے نام معنون کرتا ہوں ، یہ وہ لوگ ہیں جن کی تحریروں کو میں باقاعدگی سے فیس بک پر پڑھتا ہوں اور ان سے ہمیشہ مثبت سبق حاصل کرتا ہوں اور بطور خاص ان نڈر اور بے باک صحافیوں کے نام جو حق بات کے لئے ''ہو رزمِ حق و باطل تو فولاد ہے مومن'' کی عملی تفسیر ہیں، یوں تو ان میں بہت سے نام شامل ہیں لیکن فرداً فرداً ان کو یہاں لکھ پانا ممکن نہیں خاص طور پر جمبر ضلع قصور کے پی ایچ ڈی سکالر اور صحافی وقاص اے خان، میاں چنوں سے چوہدری اشعرنعمان، میرے حلقہ فیس بک میں شامل کسووال کے پیشہ ور کالم نگاراختر سردار چوہدری جن کے قلم کے سامنے میں اپنے قلم کو طفل مکتب پاتا ہوں اوران سالکھنے کی سعی و جدوجہد کرتا ہوں، اپنے آبائی گاؤں تلمبہ کے کالم نگارسلیم شاہد، اپنے ہم پیشہ معزز ہیڈماسٹر اور استاد کالم نگارامجد محمود چشتی جوہمیشہ میرے لئے ''سورس آف انسپائریشن" ہیں اور جنہیں میں جب جب پڑھتا ہوں اپنی کم علمی کا احساس رگوں میں فزوں تر ہوجاتا ہے، ''سڑک کنارے'' کے عنوان سے لکھنے والے علی قاسم جو ایک استاد بھی ہیں اور جن سے ملاقات نہ ہونے کے باوجود ان کی تحریروں سے ایک نادیدہ انسیت ہے، نوائے وقت میں لکھنے والے خان فہد خان، اپنے والد کے کزن صحافی چوہدری محمد اجمل، صحافی اور لکھاری خالو وسیم بن اشرف کے نام جو اس قدر علم دوست ہیں کہ ان کے گھر میں موجود بیش قیمت کتابوں کے وسیع ذخیرے کو لائبریری کی صورت میں سجا ہوا دیکھ کر میرا ہمیشہ ان کتابوں کو چرانے کا من کرتا ہے جسے میں ان کی لائبریری میں ہی بیٹھ کر اور ان کتابوں کو وہیں پڑھ کر رام کرتا ہوں، صرف اردو ڈاٹ کام کے ایڈیٹر مدثر بھٹی جو بذات خود ایک بہت اچھے کالم نگار ہیں اور ''ریمانڈ'' کے عنوان سے لکھتے ہیں، ہمیشہ میری تحاریر کی نوک پلک سنوارنے میں میری مدد کرتے رہتے ہیں، نوائے زندگی اور ورلڈنیٹ لاہور کے مینیجنگ ایڈیٹر اور انتہائی اچھے دوست محمد نعمان بدر بٹ، اور ان سینکڑوں صحافیوں کے نام کرتا ہوں جو دنیا بھر میں خطرناک ترین علاقوں میں اپنی جان کی پرواہ نہ کرتے ہوئے اپنے فرائض منصبی ادا کر رہے ہیں۔
میرے حلقہ فیس بک میں شامل انتہائی اعلی پائے کے قلمکار غلام حسین ساجد، منیر ابن رزمی، آغا سلمان باقراور صبا ممتاز بانو جن کی مسحور کن شخصیات میرے لیے ایک دیوتا کی حیثیت رکھتی ہیں اور جن کی تحریروں کا میں بے چینی سے منتظر رہتا ہوں تا کہ ان سے اپنے مطلب کا علم کشید کر سکوں۔میری تحریروں میں صحیح معنوں میں چاشنی اور رنگ ان لوگوں کی تحریروں کا مطالعہ کرنے سے پیدا ہوا ہے۔
بورڈ آف انٹرمیڈیٹ اینڈ سیکنڈری ایجوکیشن ملتان کے سیکرٹری کستورا جی شاد جن سے ان کی ضلع خانیوال تعیناتی کے دوران اکثروبیشتر علمی بات چیت ہوتی رہتی تھی اور ان کے اندر مجھے اپنے والد محترم کی ایک جھلک اس صورت میں نظر آتی تھی کہ سات زبانیں انہی زبانوں کے بولنے والے اہل زبان کی طرح لہجہ اور تلفظ کی درست ادائیگی کے ساتھ بولتے تھے، ایک دفعہ ابو کے ایک دیرینہ دوست جو استاد بھی تھے ہمارے گھر آئے، میں نے دروازہ کھولا، مجھے دیکھتے ہی ان کی آنکھوں میں ایک محبت بھری چمک عود کر آئی اور مجھ سے بولے ''اوئے تسی تاں جانگلی او، مینوں ہن پتا لگیا، آجا میرے گل لگ'' (اوئے آپ لوگ تو جانگلی ہو، مجھے آج پتہ چلا ہے، آؤ میرے گلے سے لگ جاؤ)، چند لمحات سوچنے کے بعد مجھے اصل بات کی سمجھ آگئی اور میں نے ان سے کہا، " نہیں سر ہم جانگلی نہیں ہیں ہم پنجابی ہیں، میرے ابو تقریبا چھ، سات زبانیں اسی مخصوص لب و لہجہ میں بول لیتے ہیں" اسی لیے آپ کو غلط فہمی ہوئی ہے۔
بورڈ آف انٹرمیڈیٹ اینڈ سیکنڈری ایجوکیشن کی چیئرپرسن ڈاکٹر شمیم سیال جو نہ صرف ایک کہنہ مشق ماہر تعلیم ہیں بلکہ انتہائی قابل ماسٹر ٹرینر بھی ہیں گو کہ ان سے ملاقات نہیں ہے لیکن ان سے ان کی فیس بک پر شائع ہونے والی ادبی باتوں کی وجہ سے بہت کچھ سیکھنے کو ملتا رہتا ہے۔اردو ادب کی سبجیکٹ سپیشلسٹ فوزیہ ضیاء ، نورین سرور جو برٹش کونسل کی لیڈ ماسٹر ٹرینر ہیں، ڈسٹرکٹ ایجوکیشن آفیسر لٹریسی مظفرگڑھ جو ایک ماہر تعلیم بھی ہیں اور جو خانیوال تعیناتی کے دوران میری آفیسر رہیں سے بہت کچھ سیکھا،محمد زبیر ساہی جو لٹریسی ڈپارٹمنٹ کے سابقہ ڈائریکٹر آپریشن رہے ہیں اور پنجاب ٹیکسٹ بک بورڈ کی ہشتم سے بارہویں جماعت کی اردو ٹیکسٹ بکس کے مصنف بھی ہیں نے میری صلاحیتوں کوبے پناہ نکھارا۔
ڈی ای او لٹریسی بہاول پور منصور اختر غوری جو ایک کالم نگار بھی ہیں ، پروجیکٹ لٹریسی کوآرڈینیٹر لودھراں قدوس یونس، فریحہ نورین لٹریسی موبلائزر خانیوال اورجاپان انٹرنیشنل کوآپریشن ایجنسی (جائیکا) کے پروگرام آفیسر محبوب الٰہی نہ صرف تحریری ترقی کے اس سفر میں میری حوصلہ افزائی کرتے رہے بلکہ ہمہ وقت مفید مشوروں سے بھی نوازتے رہے۔
پھولنگر سے تعلق رکھنے والے میرے ہم پیشہ استاد محمد احمد بلوچ جو گرین سیکرز نامی تنظیم کے سی ای او اور پودے آن لائن کے ماسٹر مائنڈ ہیں، گرین سیکرز کے پلیٹ فارم سے ملک پاکستان میں دس ارب درخت لگانے کی سر توڑ کوششوں میں مصروف عمل ہیں ،جہد مسلسل، عزم و ہمت اور مصمم جدوجہد کا جیتا جاگتا استعارہ ہیں نے مجھے بہت کچھ سکھایا۔ علم دوست شخصیت اور تحصیل میاں چنوں کے ڈپٹی ڈی ای او سردارسکندرحیات سسرانہ جو اکثر و بیشتر میری حوصلہ افزائی فرماتے رہتے ہیں اور جن سے اکثر و بیشتر علمی نشست ہوتی رہتی ہے، پروفیسر محمد اقبال عابد جو "مانگی ہوئی محبت" کے خالق بھی ہیں اور جن کو صرف ایک دو بار سننے کا موقع ملا لیکن ان کے انداز گفتگو نے دل موہ لیااور ان سے بہت کچھ سیکھا۔
ایک انتہائی سادہ دل منکسر المزاج اور درویش صفت استاد میاں محمد اقبال جو ایک چھوٹے سے گاؤں کے چھوٹے سے پرائمری سکول میں اپنے تدریسی فرائض سر انجام دے رہے ہیں لیکن صرف کچھ احباب کو پتہ ہے کہ وہ بیک وقت پنجابی، اردواور انگریزی زبان کے انتہائی اچھے مقامی لب و لہجے کے شاعر ہیں جو روزمرہ کی باتوں اور اپنے آنکھوں دیکھے واقعات کو شاعری کی شکل میں موتیوں کی طرف پرو دینے میں ملکہ رکھتے ہیں، میرے والد تحصیل میاں چنوں کے ڈپٹی ڈی ای او تھے اور میاں محمد اقبال سے والد محترم کی شناسائی تب ہوئی جب وہ ایک انتہائی چھوٹے دو کمروں پر مشتمل پرائمری سکول جو ''بھینی بالیاں'' نامی بستی میں قائم تھا میں تعینات تھے، اپنے کسی دفتری مسئلہ کی وجہ سے وہ والد محترم کے پاس ڈرے سہمے دفتر میں حاضر ہوئے،قصہ مختصر ایک افسر اور دو کمروں کے پرائمری سکول میں پڑھانے والے استاد کے درمیان رابطہ قائم ہوگیا (بدقسمتی سے جن پرائمری اساتذہ کی طرف آجکل اکثر افسران بالا حقارت سے دیکھنا بھی گوارا نہیں کرتے اور انہیں پریمری ماشٹر کے القاب سے نوازتے ہیں)، والد علم دوست تھے اور اہل علم کی بے پایاں قدر کرتے تھے، ایک دن موبائل پر کوئی میسج آیا، میں پاس بیٹھا تھا، ایک دم اوئے ہوئے ہوئے کہتے اٹھ بیٹھے اور مجھے کہتے یہ میسج پڑھو بھینی بالیاں کا (سب گھر والوں کو پتہ تھا بھینی بالیاں میاں محمد اقبال ہے) جب میں نے پڑھ لیا تو بولے ''ایہہ بھینی بالیاں اوس نکے جئے سکول وچ پڑھاوندا وا تے نالے ایک نکی جئی مسیت وچ مولوی بن کے پیا وا، اینوں اوتھے نہیں، کسے اچے تے وڈے مقام تے، شاعراں تے ادیباں نال ہونا چاہی دا وا، ایتھے کداں آگیا ایہے؟ (یہ بھینی بالیاں اس چھوٹے سے سکول میں پڑھاتا ہے اور ساتھ ہی ایک چھوٹی سی مسجد کا پیش امام بھی ہے، اسے یہاں نہیں کسی اونچے مقام پر شعراء و ادباء کے ساتھ ہونا چاہیے، یہ یہاں کیسے آن پہنچا)۔
یہ ایک افسر کا ایک ادنیٰ (بدقسمتی سے آجکل جو مقام ہمارا معاشرہ پرائمری ٹیچرز کو دیتا ہے) پرائمری سکول ٹیچر کو خراج تحسین تھا، جو صرف اس کے علم کی وجہ سے تھا، انہوں نے بھینی بالیاں کو پریمری ماشٹر سمجھ کر جج کرنے کی گستاخی نہیں کی، بلکہ ان کے علم کو سلام پیش۔ یہاں میں یہ بات واضح کرتا چلوں کہ میں بھی ایک پرائمری سکول ٹیچر ہوں اور مجھے اس بات پر فخر ہے اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ "I am a Teacher by choice, not by chance" ،کیونکہ ارشاد نبوی ﷺ ہے کہ بے شک مجھے معلم بنا کر بھیجا گیا ہے۔
والد محترم کے دیرینہ دوست اور ہمدم افتخار احمد جو ایک قلم کار ہیں اور پیچیدہ مذہبی موضوعات پر خاص طور پر لکھنے میں مہارت رکھتے ہیں، والد محترم کے چچا عبدالرشید عزمی مرحوم جوان کے کلاس فیلو ہونے کے ساتھ ساتھ کہنہ مشق استاد اور اردو زبان و ادب سے عشق کی حد تک لگاؤ رکھتے تھے،انہوں نے بھی میری تحریر نکھارنے میں اہم کردار ادا کیا۔ بینکر اور بہت خوبصورت لکھنے والے قلم کار لیاقت عظیم جن کی تحریریں ہمیشہ دل و دماغ پر سحر طاری کر دینے کے ساتھ ساتھ ان مٹ نقوش چھوڑ جاتی ہیں،اچھے دوست اور خودساختہ دانشور سعید الحق چشتی جو افسانہ نگار بھی ہیں اور ''حکایات سعیدی'' کی صورت اور شگفتہ پیرائے میں چٹکلے چھوڑنے کے ساتھ ساتھ کبھی کبھار ادھر ادھر بھی نکل جاتے ہیں، میرے والد کے ہونہار شاگرد لیاقت علی لیاقت جو استاد ہونے کے ساتھ ساتھ بچوں کے ادب کے بہت اچھے لکھاری ہیں اور عبدالستار کے نام جس نے نہ صرف اپنی انتھک محنت اور جدوجہد کے بعد معاشرے میں اپنا ایک اعلی مقام بنایا بلکہ وہ ایک ابھرتا ہوا وی لاگر لکھاری بھی ہے۔
اپنے ہم جماعتوں میں سے بہت اچھے دوست اور کلاس فیلو کالم نگار ڈاکٹر حامد اسلام (جوآجکل نجی مصروفیات کی وجہ سے لکھ نہیں پا رہے) سوشل میڈیا پر اپنی تحاریر کی وجہ سے معروف اسرار حیدر، بہت ہی نرم خو، نرم مزاج، حساس، دل پذیر شاعر اور پروفیسر کلیم اللہ، ہیڈماسٹر اور قریبی دوست عقیل حیدر جس نے ہمیشہ میری حوصلہ افزائی ہی کی ہے، اس کے علاوہ بھی بہت سے قدردان، چاہنے والے اور میرے سٹوڈنٹ ہیں جن کا نام اس تحریر میں لینا میں نادانستگی میں بھول گیا ہوں ان سب نے میری تحریروں کو نکھارنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔
یہ وہ سارے چھوٹے چھوٹے رشتے، ناتے ہیں جنہوں نے مجھے بڑا بنانے میں اہم کردار ادا کیا ہے، اس بات سے قطعی بے خبر کے میں ان کی لاعلمی میں ہی ان سے نروان حاصل کرتا رہا ہوں، آخر میں تمام قارئین اور خاص طور پر اساتذہ کرام سے میری گزارش ہے کہ بچوں میں موجود ان کی تخلیقی صلاحیتوں کو پہچانیں اور ان کی حوصلہ افزائی کریں، بچوں کو زیادہ سے زیادہ پڑھنے کی ترغیب دیں اور یہ اسی صورت میں ممکن ہے کہ جب آپ خود ان کو رول ماڈل بن کر دکھائیں گے، ایک ٹرین میں دورانِ سفر ایک شخص نے دیکھا کہ ایک خاتون کتاب کا مطالعہ کر رہی ہیں اوران کے ساتھ بیٹھی ان کی چھوٹی سی بچی بھی کتاب لیے بیٹھی ہے، انہوں نے خاتون کو مخاطب کرتے ہوئے پوچھا، آپ نے اپنی بچی کو کتاب پڑھنے پر کیسے مجبور کیا؟ہمارے بچے تو موبائل اور ٹیلی ویژن سے دور نہیں ہوتے، خاتون نے جواب دیا بچوں کو مجبورتو کیا ہی نہیں جا سکتا، وہ تو آپ کی نقل کرتے ہیں۔
اچھا لکھاری بننے کے لیے اچھا قاری ہونا سب سے پہلا مرحلہ ہے، جس قدر آپ کا مطالعہ وسیع ہو گا اسی قدر آپ کا ذخیرہ الفاظ بڑھے گا اور چھوٹے بچوں کی سیکھنے کی رفتار تو ایک بالغ شخص سے کہیں زیادہ ہوتی ہے وہ دوران مطالعہ زیادہ ذخیرہ الفاظ جمع کر لیتے ہیں۔ کورونا کی اس عالمی وباء کے فارغ اوقات کو مثبت سرگرمی میں بدلیں، اپنے بچوں کو کہانیاں پڑھ کر سنائیں، بچوں کے ادب سے انہیں روشناس کروائیں، انبیاء کی سیرت، مشاہیر، نیک انسانوں اور عظیم لوگوں کے حالات زندگی ان کو سنائیں ، یہی بچے ہمارا کل کا سرمایہ ہیں اور انہی میں سے کل کوئی اقبال بنے گا تو کوئی غالب، کوئی ادب کی دنیا میں نام پیدا کرے گا تو کوئی صحافت میں رہتی دنیا تک امر ہوگا۔
ایک چراغ اور ایک کتاب اور ایک امید اثاثہ اس کے بعد تو جو کچھ ہے وہ سب افسانہ ہے

Browse More Urdu Literature Articles