Muhababt Ki Talash - Article No. 1966

Muhababt Ki Talash

محبت کی تلاش - تحریر نمبر 1966

روز صبح اسکول جاتے ہوئے شکیلہ کی ہلکی ہلکی گنگناہٹ جس میں موسیقیت کی نسبت درد کا عنصر زیادہ ہوتا،مجھے اپنی طرف ضرور متوجہ کر لیتی۔مجھے اپنی طرف توجہ پاکروہ بھی مجھے کرکے خیریت ضرور پوچھتی۔

پیر 18 مارچ 2019

روز صبح اسکول جاتے ہوئے شکیلہ کی ہلکی ہلکی گنگناہٹ جس میں موسیقیت کی نسبت درد کا عنصر زیادہ ہوتا،مجھے اپنی طرف ضرور متوجہ کر لیتی۔مجھے اپنی طرف توجہ پاکروہ بھی مجھے کرکے خیریت ضرور پوچھتی۔
تقریباً تین سال سے وہ اسی سڑک پر جھاڑو دینے پر مامور تھی۔اوروں کی طرح وہ کام چورنہ تھی۔صاف ستھری سڑک اس کے کام کی لگن کا پتہ دیتی تھی ۔وہ سڑک کی صفائی اور ستھرائی میں اتنی منہمک ہو جاتی کہ اسے وقت کا پتہ نہ لگتا۔

یا شاید وقت کا پیمانہ اس نے گھڑی اور گھنٹے کے بجائے فرض کی تکمیل رکھا تھا۔اسی لیے اس کے چہرے پر تکان کے بجائے اطمینان وسکون کے آثار ہوتے جو اسے دوسروں سے نمایاں کر دیتے۔
وہ عام جمعدارنیوں جیسی ہی ایک جمعدارن تھی لیکن کسی قدر موزوں قدوقامت،ادھیڑ عمر،مضبوط ہاتھ پاؤں اور صاف ستھرے لباس والی یہ عورت جمعدارنی کم اور ایک سگھڑ عورت زیادہ نظر آتی۔

(جاری ہے)


شکیلہ کی ایک عادت کو محلے میں کم وبیش ہر شخص نے محسوس کیا تھا۔علی الصبح صاف ستھری یونیفارم پہنے ہوئے اسکول جاتے ہوئے بچے اس کی خاص توجہ کا مرکز ہوتے ۔دنیا ومافیہا سے بے خبر اپنے کام میں مگن رہنے والی یہ عورت نظر بھراگردیکھتی تو صرف بچوں کو۔
سالانہ امتحان شروع ہونے کے زمانے میں شکیلہ اپنا کام اس وقت تک کرتی رہتی جب تک بچے اسکولوں سے گھر واپس ہونا نہ شروع ہو جاتے۔
ایسا لگتا جیسے یہ حرکت دانستہ ہو۔امتحان دے کر آنے والے لڑکوں سے وہ ان کے پرچوں کے متعلق ضرور سوال کرتی۔ان کے چہرے کی اضطرارتی کیفیت دلی جذبات کی غمازی کرتی ۔لیکن وہ دلی جذبات کیاتھے․․․․؟اس کا کبھی کسی کو اندازہ نہ ہوا۔
لوگوں کے ذہن میں کئی سوالات آتے۔کیا اسے باتیں کرنے کا شوق تھا․․․․؟نہیں ایسا ہوتا تو وہ ہر ایک سے باتیں کرتی اور پھر زیادہ باتیں کرنے والے اتنا کام کہا ں کرتے ہیں ․․․․؟
کسی کے گھر کی جمعدارنی چلی جائے یا کوئی ناغہ کر جائے تو وہ بلا عذر اور بلا معاوضہ اس کا کام نمٹانا اپنا فرض سمجھتی تھی ،برادری والیوں کا ہاتھ بٹانے کی خاطر نہیں ،بلکہ محلے کے ہر فرد کی پریشانی خود اس کی پریشانی بن جاتی تھی ۔
اس کی تو کوئی برادری ہی نہ تھی۔انہی بنگلوں سے ذرا پرے ایک ادھ بنا مکان اس کا گھر تھا۔اکثر جمعدارنیوں سے تو اس کی جان پہچان بھی نہ تھی۔شکیلہ اس کی بول چال ،پہنا وے اور وضع قطع کا فرق صاف ظاہر کرتا تھا کہ سوائے پیشہ کی یکسانیت کے اس کا ان جمعدارنیوں سے دور کا بھی واسطہ نہیں ہے ۔ایسے میں تنہائی کا احساس ہونا ایک قدرتی بات ہوتی ہے ۔لیکن وہ اپنی بے عذر خدمت کی بدولت بیگمات کی خاصی دلاری تھی ۔
کام ہی سب کو پیارا ہوتا ہے ۔
اس میل ڈیڑھ میل لمبی سڑک کے دورویہ بنگلوں میں روزانہ کسی نہ کسی بنگلے میں جمعدارنی کا ناغہ کرجانا کوئی خاص بات نہ تھی۔ایسے میں شکیلہ کا بے عذر کام کر دینا بڑی اہم بات ہوتی تھی اور وہ بھی بغیر معاوضہ ۔یہ اور بات ہے کہ بیگمات خوش ہو کر دوسرے تیسرے ماہ ٹوٹی چپل یا پھٹا دو پٹہ دے کر اس کے احسان کے بوجھ سے سرہلکا کر لیتی تھیں۔

ان تمام صفات کے باوجود وہ بہر حال ایک جمعدارنی تھی ۔جس کے احساس سے ہی اس کی آنکھوں کی چمک ماند پڑجاتی ۔گھروں میں ضرورت پڑنے پر خندہ پیشانی سے پیش آنے والی بیگمات کا راہ چلتے اس کے سلام کا جواب دینا ہی اس کی خدمت کا سب سے بڑا صلہ ہوتا۔
کاشف اور نیہاں سڑک کے کنارے بنے ہوئے خوبصورت بنگلوں میں رہتے تھے میٹرک کرلینے کی خوشی میں شکیلہ کا مٹھائی لے کر ان کے گھر مبارکباد کے لیے جانا،اپنے پیچھے قیاس آرائیوں کا ایک طوفان چھوڑ گیا۔
لیکن وہ اس سے قطعی بے خبر تھی ۔اچھا تو کسی کو بھی نہ لگا لیکن اس کی خدمات منقطع ہو جانے کے ڈر سے مٹھائی واپس کر دینا دونوں میں سے کسی گھرانے کو مناسب نہ معلوم ہوا۔اسے شکیلہ کی مکھن بازی کے سوا اور کوئی نام نہ دیا جا سکا۔کسی نے زیادہ رعایت کی تویہ کہہ دیا کہ ایسے موقعوں پر انعام واکرام حاصل کرنے کا یہ پرانا حربہ ہے ۔انعام کے اسی لالچ کو پورا کرنے کے لیے نیہاں کی امی نے اسے دو پٹہ لا کر دیا ،لیکن پھر بھی اسے آزردہ ہی دیکھا تو اتنا ہی سمجھ سکیں کہ شاید انعام حسب توقع نہیں ہے ۔
وہ دوپٹہ کسی دھار دار چھری کی مانند شکیلہ کا دل زخمی کر گیا۔خلوص نے آہ کر کے دم توڑ دیا۔اس کی لائی ہوئی مٹھائی کسی فقیر کو دے دینے کی ہدایت کر دی گئی مگر فقیروں کی کمی کے باعث کوڑے میں پھینکنی پڑی۔
اور اب ساجد میاں میرے گھر سے میٹرک کا امتحان دے کر رزلٹ کا انتظار کر رہے تھے۔اکثر راہ چلتے شکیلہ ساجد سے پرچوں کے متعلق سوال کرتی اور بعد میں نتیجہ آنے کی تاریخ بھی پوچھتی۔
خدا خدا کرکے نتیجہ آگیا۔حسب توقع ساجد عمدہ نمبروں میں کامیاب ہوئے تھے۔عزیز و اقارب ،احباب اور پڑوسیوں کا تا نتا بندھاہوا تھا۔آپ کا مبارکباد کے لیے آنے والوں کے پاس بیٹھنا ضروری تھا۔خاطر تواضع کے لیے ہم سب اور کھیپ بھر نو کر کیا کم تھے ۔کب دو پہر ہوئی اور کب شام․․․․؟یہ سوچنے کا موقع ہی کسے تھا۔ مٹھائیوں سے سجی پلیٹوں اور مشروب کی بوتلوں کے درمیان بیٹھے ہونے کے باوجود ایک مرتبہ مجھے شکیلہ کے سلام نے بری طرح چونکا دیا۔
خلاف توقع اسے دیکھ کر حیرت بھی ہوئی اور غصہ بھی آیا ۔بھلا اس وقت اس کے آنے کی کیا تک تھی۔
ان سب باتوں سے بے خبر شکیلہ نے آپ کے متعلق سوال کیا ۔جواب پاتے ہی پوٹلی کھول کر مٹھائی کا ڈبہ اس نے میرے ہاتھ میں تھماتے ہوئے کہا۔
”چھوٹی بی بی ! بابو کے پاس ہونے کی خبر مجھے ابھی ملی ہے ۔میری طرف سے یہ لڈو انہیں کھلادو۔بس حلوائی کی دکان سے لے کر سیدھی آئی ہوں۔

میری نظرمعلوم نہیں کیوں اس کے چہرے کی طرف اٹھ گئی۔دل کی بات بے اختیار زبان سے نکل گئی۔
”خواہ مخواہ کیوں اتنے پیسے خرچ کیے۔دوسروں کے بچوں کی خاطر تم کیوں تکلیف اٹھاتی ہو․․․․؟“ایک دم پھوٹ پڑی۔
”چھوٹی بی بی یہ نہ پوچھو۔کسی نے بھی آج تک نہ پوچھا۔تم نے پوچھ کر میرے زخم پھر سے ہرے کر دیے۔شوہر کے مرنے کے بعد بھی میں سڑکیں جھاڑ جھاڑ کر اپنے شامو کو پڑھاتی رہی شاموجب نویں میں پہنچا تو مجھ سے ہمیشہ کہتا۔
ماں جب میں دسویں پاس کروں گا،تو مجھے دل کھول کر مٹھائی کھلانا۔ساتھ میرے یاروں دوستوں کو بھی ۔لیکن یہ خوشی دیکھنے سے پہلے ہی خدا نے اسے اپنے پاس بلالیا۔
میں تنہا اس کا غم سمیٹے اب بھی سڑکیں جھاڑتی رہتی ہوں ۔جب بھی کوئی لڑکا دسویں پاس کرتا ہے تو ایسا لگتا ہے کہ شامو ہی پاس ہوا ہے اور اب اسے مٹھائی ضرور کھلانی چاہیے۔میں دیوانی یہی سوچ کر مٹھائی لے کر پہنچ جاتی ہوں ۔
یہ بھی دھیان سے اتر جاتا ہے کہ میں کیاہوں ۔
چھوٹی بی بی ۔ساجد میاں ہوں یا کاشف بابو۔ہیں تو بچے ہی ۔تھوڑی سی دیر کے لیے مجھے انہیں ہی اپنا شامو سمجھ لینے دو۔میرا حوصلہ بڑھ جائے گا۔سال بھر کے لیے یہ سوچ کر پھر جینے کا سہارا ہو جائے گا کہ چلو ایک سال اور نمٹ گیا۔
بی بی ․․․․․!پھول ،پھول ہی ہوتا ہے ۔امیر کی کوٹھی میں ہو یا غریب کی جھونپڑی میں ۔
سب ہی اس کی خوبصورتی دیکھ کر خوش ہوتے ہیں ۔تم اپنے گھر کے پھول پر مجھے بھی خوش ہو لینے دو۔تمہارا تو کچھ نہ جائے گا۔
اس کے بہتے ہوئے آنسوؤں نے مجھے جھنجھوڑکر رکھ دیا۔دل نے وہ کچھ کہا جسے دماغ پہلے ہی تسلیم کر چکا تھا۔
میں نے آہستہ سے مٹھائی کا ڈبہ کھولا۔ایک لڈو پاس کھڑے ساجد کے منہ میں رکھا اور دوسرا اپنے منہ میں مجھے ایسا لگا کہ میں نے اتنی مزیدار مٹھائی پہلے کبھی نہ کھائی تھی۔نظریں چرا کر شکیلہ کا چہرہ دیکھا۔
وہ ٹکٹکی باندے ساجد کا شہرہ تک رہی تھی۔چہرے پر نور تھا اور آنکھوں میں مامتا کی اتھاہ محبت!

Browse More Urdu Literature Articles