Naraaz Biwi - Article No. 2323

Naraaz Biwi

ناراض بیوی - تحریر نمبر 2323

، '' بھابھی! آپ کا بے حد شکریہ آپ نے جو میٹھا بھجوایا تھا بے حد ذائقے دار تھا۔۔۔۔۔۔ '' اب بھابھی صاحبہ حیران پریشان اپنے حافظے کا حدود اربعہ ناپ رہی ہیں کہ کون سا میٹھا؟ کب بھجوایا تھا میٹھا؟ اور وہ بھی ذائقے دار میٹھا؟

صائمہ نواز منگل 28 اپریل 2020

قارئین کرام آپ نے بارہا ایسی مظلوم بیویوں کی داستانیں سنی ہوں گی جو اپنے شوہروں سے اس بات پر نالاں رہتی ہیں کہ وہ گھر کے کام کاج میں ان کا ہاتھ نہیں بٹاتے۔ لیکن کیا کبھی ایسی مظلوم بیوی کی کہانی بھی آپ تک پہنچی جو گھر کے کاموں میں شوہر کا ہاتھ بٹانے کی وجہ سے نالاں نظر آتی ہو؟ ارے! آپ ایسی بیوی کو مظلوم کہنے کی وجہ سے ناراض دکھائی دینے لگے۔
یعنی آپ کا خیال ہے کہ ایسی بیوی کو تو اپنی خوش قسمتی پر نازاں ہونا چاہیے۔ آپ کی بات بجا سہی لیکن پہلے اس مظلوم ہستی کی کتھا تو سن ہمارا مطلب ہے پڑھ لیں ہو سکتا ہے آپ کی رائے بدل جائے۔تو آج ہم آپ کو ایسی ہی ایک مظلوم بیوی یعنی اپنی داستان کے کچھ حصے سناتے ہیں۔پھر آپ ہی فیصلہ کریں گے کہ ہمیں اپنی قسمت پر نازاں ہونا چاہیے یا نالاں۔

(جاری ہے)

ویسے تو ہم شروع ہی سے صفائی پسند واقع ہوئے ہیں۔

یا یوں کہہ لیں کہ صفائی کی عادات ہم میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہیں۔گھر تو ہم صاف رکھتے ہی ہیں اور جہاں تک باورچی خانے کا تعلق ہے تو وہ خاتون خانہ کے سلیقہ کا مظہر ہوتا ہی ہے۔ لہذا ہم چاہتے ہیں کہ ہمارا باورچی خانہ ہر وقت صاف ستھرا اور چمکتا دمکتا رہے۔اور ایسا صرف اس صورت میں ممکن ہے جب اسے کم سے کم استعمال کیا جائے(آخر ہوٹل اور ریسٹورنٹ کس مرض کی دوا ہیں) اس لیے باورچی خانے کا گندگی کے ساتھ ساتھ بندوں سے بھی پاک صاف رہنا نہایت ضروری ہے۔
تو قارئین کرام! یہاں آکر ہمارے خیالات ہمارے شوہر کے خیالات سے ٹکرا جاتے ہیں اور آپ تو جانتے ہی ہیں ٹکراو کا انجام۔ شوہر صاحب کے خیال میں خاتون خانہ بلکہ صاحب خانہ کا بھی ذیادہ تر وقت کچن میں گزرے تو خانگی زندگی ذائقے دار رہتی ہے۔ تو آئیے آپ کو بھی اس ذائقے سے روشناس کراتے ہیں کہ چکھ کر بتائیں کڑوا ہے یا میٹھا؟ پہلا ذائقہ ہمارا مطلب ہے پہلا واقعہ پیش خدمت ہے۔
کچھ دن ہوئے ہمیں کھیر بنانی تھی اور آپ تو جانتے ہی ہیں کھیر بنانے میں تھوڑی سی بھی لاپرواہی اچھی بھلی سیدھی کھیر کو'' ٹیڑھی کھیر '' بنا سکتی ہے۔ خیر ہم جملہ سامان کچن کے کاونٹر پر رکھ کر کھیر بنانے کی تیاری شروع کرنے ہی والے تھے کہ ہماری ایک سہیلی صاحبہ کا لینڈ لائن پر فون آگیا باتوں باتوں میں وقت گزرنے کا تو پتہ نہیں چلا لیکن اچانک ناک میں کچھ جلنے کی بو آنے لگی۔
ہم نے فورا الوداعی جملے کہہ کر فون رکھا اور کچن کی طرف بھاگے لیکن دروازے میں ہی بریک لگانی پڑی کہ کچن کے فرش پر دودھ کی نہر رواں دواں تھی اسے احتیاط سے عبور کرتے ہوئے چولہے کے پاس پہنچے تو دیگچی میں باقی ماندہ دودھ ایسے ہی کھول رہا تھا جیسے اس وقت غصے سے ہمارا دماغ۔ چولہا بند کر کے صفائی کی اضافی مشقت میں جتے ہوئے تھے کہ لاؤنج سے شوہر صاحب کا فرمان جاری ہوا، '' کھیر تو تیار ہو چکی ہو گی آپ فون پر مصروف تھیں تو ہم نے سوچا کچھ ہاتھ بٹا دیں۔
۔۔'' ایسے موقع پر اپنا منہ بند رکھنا بڑا جان جوکھوں کا کام ہے جو ہمیں کرنا پڑتا ہے کہ اگر منہ کھل جائے تو سمجھ لیں جنگ کا طبل بج گیا۔۔۔ جیسا کہ ہم پہلے عرض کر چکے ہیں کہ ہم اپنے کچن کو صاف رکھنے کی خاطر اسے کم سے کم استعمال کی خواہش رکھتے ہیں۔ لہذا ہمیں ایسے کھانے پسند ہیں (پکانے کی حد تک) جنھیں کم سے کم وقت میں پکایا جا سکے مثلا ابلا ہوا انڈا، تلا ہوا انڈا اور اور۔
۔۔۔۔(چلیں جانے دیں ایسے کھانوں کی فہرست پھر کبھی سہی) لیکن ہمارے شوہر صاحب کو ہر وہ پکوان پسند ہے جسے پکاتے ہوئے نہ صرف بندہ کھڑا کھڑا اکڑ جائے اور پسینہ چوٹی سے ایڑی تک بہنے لگے بلکہ چولہا اور کچن کی دیواریں بھی اپنا اصل رنگ روغن بھول جائیں۔ ایسے پکوان بنانے کے لیے وہ ہمیں کہنے کی بجائے خود کچن کا رخ کرتے ہیں۔ کچن میں داخل ہوتے ہی فریزر سے گوشت نکال کر سنک میں رکھا اور ہماری ڈیوٹی لگ گئی کہ ذرا لہسن پیاز ادرک چھیل کر پیس دیں کہ صاحب بریانی بنانے لگے ہیں۔
ہاں یہ سب پیسنے کے بعد (بیشک دانت پیستے ہوئے) لگے ہاتھوں گوشت بھی دھو دیں۔ رہے چاول تو بھیگی ہوئی آنکھوں کے ساتھ وہ بھی ہم نے بھگونے ہوتے ہیں۔ بھئی پیاز کاٹنے سے آنکھوں میں آنسو آ ہی جاتے ہیں۔ یہ سب کام سر انجام دیتے ہوئے ہم ان پلیٹوں،چمچوں اور مصالحوں کی بوتلوں کو دیکھتے رہتے ہیں جو قطار در قطار کاونٹر پر سجتی جاتی ہیں۔ کسی پلیٹ میں پکانے والا چمچ دھرا ہوتا ہے تو کسی میں مصالحہ ڈالنے والا، اور کسی میں دہی ڈالنے والا۔
کوئی پلیٹ ٹماٹروں کو اپنی آغوش میں سمیٹے ہوتی ہے تو کسی میں ہری مرچیں محو استراحت ہوتی ہیں۔ ایسے میں ہم اپنی زبان دانتوں میں ہی دبائے رکھتے ہیں کہ اس کی ذرا سی حرکت ہماری زندگی کے ذائقے میں ہری تو کیا لال اور کالی مرچوں کی بھی بہتات کر سکتی ہے۔۔ بریانی کے علاوہ ہمارے صاحب میٹھے کے بھی بے حد شوقین ہیں۔ کھانے سے ذیادہ پکا کر دوسروں کو زبردستی کھلانے کے۔
اور یہاں بھی وہ ہم پر تکیہ کرنے کی بجائے اپنی مدد آپ کے اصولوں پر عمل کرتے ہیں۔میٹھا عموما وہ اس وقت بناتے ہیں جب ہم سب گھر والے دوپہر کے کھانے کے بعد آرام فرما رہے ہوتے ہیں۔ اور اکثر سہ پہر کو ہماری ناک کسی نہ کسی میٹھے کی خوشبو پا کر ہمیں جگا دیتی ہے اور ہم نیند سے بھاری سر کے ساتھ کچن کا رخ کرتے ہیں کہ الہی خیر! آج کس میٹھے کی شامت آئی اور اپنی شامت تو یقینی ہوتی ہے برتنوں اور کچن کی صفائی کی صورت میں۔
کچن میں پہنچ کر ''میٹھے '' کی باقیات سے اندازہ لگانے کی کوشش کرتے ہیں کہ کیا پکایا گیا۔ باقیات اس لیے کہ یہ اپنی محنت کو محلے میں دو تین سنگل دوستوں کے ہاں بانٹ کر ٹھکانے لگا چکے ہوتے ہیں یا اسی کام میں مصروف ہوتے ہیں۔ ویسے ایک لحاظ سے تو یہ اچھا ہی رہتا ہے کہ ان کا بنایا ہوا میٹھا بیچارے سنگل افراد ہی صبر و شکر کر کے کھا سکتے ہیں کہ یہ میٹھا صرف مٹھاس کی وجہ سے میٹھا کہلایا جاسکتا ہے ورنہ شکل و صورت میں یہ کئی پکوانوں کی شباہت چرائے ہوئے ہوتا ہے۔
مثلا سویوں کا زردہ اکثر اوقات چاکلیٹ کیک کی شکل دیتا ہے تو چاولوں کا زردہ کیسری کھیر سا نظر آتا ہے۔اور اگر کبھی کیک کی ریسپی پر ہاتھ صاف کرلیں تو کیک تو بن جاتا ہے لیکن کبھی آئل ڈالنا بھول جاتے ہیں تو کبھی چینی یا انڈے۔ اور یوں کیک کھانے کے ساتھ ساتھ سر پھوڑنے کے لیے بھی دستیاب ہوتا ہے جسے ہمیں ہی شام میں گرم چائے میں ڈبو کر تناول کرنا پڑتا ہے۔
ہاں اس کیک کو ہم چھری سے کاٹنے کی بجائے ہتھوڑی سے توڑتے ہیں۔ یہاں تک تو جیسے تیسے ہم بھگت لیتے ہیں لیکن اس کا کیا کیا جائے کہ جب کبھی ان کے کسی دوست کا فون ہمیں ریسیو کرنا پڑ جائے تو اکثر ہمیں ایسے الفاظ بھی سننے کو ملتے ہیں کہ، '' بھابھی! آپ کا بے حد شکریہ آپ نے جو میٹھا بھجوایا تھا بے حد ذائقے دار تھا۔۔۔۔۔۔ '' اب بھابھی صاحبہ حیران پریشان اپنے حافظے کا حدود اربعہ ناپ رہی ہیں کہ کون سا میٹھا؟ کب بھجوایا تھا میٹھا؟ اور وہ بھی ذائقے دار میٹھا؟ تو جناب! اب بھی آپ کا یہی خیال ہے کہ ہمیں اپنی قسمت پر نازاں ہونا چاہیے نہ کہ نالاں!

Browse More Urdu Literature Articles