Paindoo - Article No. 2143

Paindoo

پینڈو - تحریر نمبر 2143

اس دور میں بھی پینڈو وسیب اس قدر طاقت ور ہے ان میں بھائی چارہ مثالی دیکھنے کو ملتا ہے ایک دوسرے کے دکھ درد کے ساتھی ہونے کے ساتھ ساتھ اپنے پینڈو بھائیوں کا ساتھ بھی نبھاتے ہیں اور شہریوں کو اپنے ہمسائے کی بھی خبر ں نہیں ہوتی

Riaz Ahmad Shaheen ریاض احمد شاہین جمعرات 3 اکتوبر 2019

لاہورعلم وادب کا گہوارہ چلا ارہا ہے صحافتی اور کاروباری سلسلہ کے باعث میرا انا جانا لاہور رہتا تھا فوٹو گرافری کاجنون کے ساتھ فیچراور نیوز میر ا ہمشیہ مشغلہ چلا ٓ رہا ہے روز نامہ کوہستان سے وابستگی تھی نسیم حجازی مدیر اعلی تھے ۔اندرون لاہور میں گوالمنڈی میں بٹ چائے والا کی دُکان پر چائے پینے والوں کارش معمول کی بات تھی میں اپنے کیمرہ اور فلش گن کے ساتھ اپنے جگری دوست قاضی اعجاز احمد جو کہ تعلیم یافتہ ادبی خاندان کے چشم وچراغ تھے اس چائے کے سٹال پر بیٹھے گرما گرم چائے کی چسکیاں لے رہے تھے ،یہ ٹی سٹال انتہائی صاف ستھرا چمکتے برتن اور خوش پوش دُکاندار خالص دودھ ہی اس چائے والے کی شناخت تھی اس نے چائے کے علاوہ کھانے پینے کی کوئی اشیاء بھی نہ رکھی ہوئی تھی اس دُکاندار کا صاف ستھرا ماحول گاہگوں کو کھینچ لاتا تھا۔

(جاری ہے)

میں اس ٹی سٹال پر تصاویری فیچر بنایا اسی دوران ہماری نگاہ گوالمنڈی چوک میں زمین پر ڈیرہ جمائے میلے کچلے کپڑوں واے شخض پڑی، میں نے قاضی صاحب کی توجہ اس شخض کی جانب دلاتے ہوئے کہا یہ معروف شاعر ساغر صدیقی ہیں اکثر اوقات ان کو اسی حالت میں دیکھتا ہوں چوک میں معروف بٹ پان والے اس کا خیال رکھتے ہیں بڑے بڑے فلمساز اور ادبی لوگوں ساغر صدیقی کے پاس آ نا جانا رہتا ہے ابھی ہم یہ ہی گفتگو کر ہی رہے تھے ایک دیہاتی شخض چائے کی دُکان میں آ یا اور ہمارے سامنے والی میز پر بیٹھ کر اس نے چائے کا آ رڈر دیا ویٹر نے آواز دی ایک پینڈ و کیلئے چائے۔
یہ لفظ سن کر میں نے ویٹر کو بلایا اور کہا ہم سب پینڈو ہیں وہ ہمارے سوٹڈبوٹڈدیکھ کر بولا آ پ تو شہری ہیں میں نہ بھائی ہم پینڈو ہیں بر حال یہ بحث جاری تھی پینڈو بھائی نے اپنی چادر میں بندھی روٹی اور گڑ نکالا چائے کے ساتھ کھانا شروع کیا میرے اندر کے ضمیر نے جھنجوڑا کیا پینڈو ہونا بھی معاشرہ کی تقسیم ہے ابھی اسی سوچ میں تھا مجھے ایک واقعہ یا د جو کہ چند ماہ قبل مغربی پاکستان اسمبلی میں سپیکر انور بھنڈر کے ویٹنگ روم میں دیکھنے کو ملا تھا میں اور انجمن اصلاح المسلمین کے ناظم اعلی میاں غلام رسول کے ہمراہ کسی کام کے سلسلہ میں انتظار کر رہے تھے وہاں ان کے دیہات سے بھی ملنے والے بیٹھے تھے ایک پینڈو بوڑھا بار بار اونچی آ واز سے پکار رہا تھا انور کیوں نہیں آ رہا اُس کو بلاوٴ وہاں موجود آ فیسر بوڑ ھے سمجھا تا رہا ایسے نہ بولو مگر بوڑ ھا ضد پر تھا آ خر اسپیکر تشریف لے آ ئے انہوں نے پہلے اس بوڑھے کو گلے لگایا خیر خیرت پوچھی اور اپنے آ فس میں لے گئے جب ہمیں بلایا گیا تو ہم نے دریافت کیا آ پ کی گاوٴ ں سے محبت اس قدر ہے تو سپیکر انور بھنڈ ر نے کہا آج میں اسپیکر ہوں کل نہیں ہوں گا آ خر ان گاوٴ ں والوں نے ہی میر ی میت کو اُ ٹھانا ہے یہ ہی میری آ خری ایام زندگی میں دکھ درد کے ساتھی ہوں گے، ان کا یہ رویہ قابل تعریف تھا یہ لوگ بھی پینڈو تھے ۔
ایک دوسرا وا قعہ منہ بولے ماموں سکھ کے ساتھ پیش آ یا ایوب دور حکومت میں لاہور کی مال روڑ انار کلی کاروباری مراکز تھے میں نے ماموں سکھ جو فیکٹری کی ویگن چلاتے تھے میں نے اپنا سوٹ ڈرائی کلین کرانے کیلئے ان کو دیا یہ سوٹ مال پر معروف ڈرائی کلین کی دُکان پر لے جانا مال روڑپر بڑ ی ویگن کی اجازت نہ تھی ماموں نے رکشا لیا سر پر چادر لپیٹی اور مال روڑ پر جا کر رکشا ڈرائیور سے پوچھا ڈرائی کلین کی دُکان کہاں ہے رکشا ڈرائیور نے کہا پینڈو شہر میں بتیاں دیکھنے آ جاتے ہیں ان کوئی سوجھ بوجھ نہیں ہوتی اور دُکان کا پتہ پوچھتے ہیں یہ جملے سن کر ماموں کا پارہ چڑھ گیا نہ آوٴ دیکھا نہ تاوٴ دیکھا ایک تھپڑ رسید کیا اور کہا دیکھ میرے پاس ہیوی لائسنس ہے اور لاہور کے چپہ چپہ سے واقف ہوں بلا ناغہ لاہور آ نا جانا ہے مجھے پینڈو سمجھ کر یہ الفاظ کہے ہیں ۔
اس پر رکشا ڈرائیور نے کہا استاد میں بھول گیا معاف کر دو جبکہ اس دور میں ایسا بھی ہوجاتا تھا جب ہم بتاتے تھے ہم پنڈی بھٹیاں سے آ ئے ہیں شہری لوگ سمجھتے تھے ان لو گوں کا تعلق پینڈو علاقہ سے ہے اور بات کرتے بھی کتراتے تھے بر حال ایک مدت کے بعد میڈیا میں سرکاری عہدوں پر کاروبار وں سمیت ہر شعبہ زندگی میں پینڈو ہی بر جمان ہیں اس دور میں بھی پینڈو وسیب اس قدر طاقت ور ہے ان میں بھائی چارہ مثالی دیکھنے کو ملتا ہے ایک دوسرے کے دکھ درد کے ساتھی ہونے کے ساتھ ساتھ اپنے پینڈو بھائیوں کا ساتھ بھی نبھاتے ہیں اور شہریوں کو اپنے ہمسائے کی بھی خبر ں نہیں ہوتی یہی وجہ ہے دیہاتی ووٹ بنک شہری آ بادی پر حاوی چلا آ رہا ہے اقتدار میں بھی پینڈو کی سیاست چلتی ہے اور ووٹ کی طاقت بھی پینڈو ہی ہیں

Browse More Urdu Literature Articles