Zindagi Ki Gari...episode1 - Article No. 1883

Zindagi Ki Gari...episode1

زندگی کی گاڑی۔۔قسط نمبر(1)تحریر:عبید منج - تحریر نمبر 1883

اکیلے پن کا یہ سفر جو روزانہ طے کرنا پڑتا ہے اسکی چاشنی میں کمی کا منہ بولتا ثبوت ہے

منگل 22 جنوری 2019

بہت سوچنے کے بعد آنکھوں کو مسل کر لال کر لیا رات کے اس پہر میں چاند کی چاندنی کے علاوہ کوئی ساتھ نظر نہیں آ رہا تھا۔بستر پہ جانا ایسا لگ رہا تھا جیسے کانٹوں کی سیج ہو۔ برآمدے سے جیسے باہر نکلا تو چاند کو بھی تنہا دیکھ کر زندگی کی رنگینیوں کے کھونے کا احساس ہوا۔جو چیزوں میں راحت کا سبب بنتا ہے وہ بھی ساتھ سے مبرا ہو کر اپنی گاڑی کو سرِخم کرنے کے لئے چل رہا تھا۔
اس کے آہستہ آہستہ چلنے کی آہٹ کو محسوس کرنے کے لئے خود کو تنہا اور سارے عالم سے جدا کر کے اس کے دھیمے قدم اس کی تنہائی کا منہ بولتا ثبوت تھے۔اسکے داغ اسکی آنکھوں کا حال بتا رہے تھے جو بہہ بہہ کر سیاہ دھبوں کی شکل اختیار کر چکے تھے۔دوسروں کی نظر میں وہ اسکی خوبصورتی میں ایک دھبہ لگتا ہے لیکن ہجر و فراق کی زندگی انسان کے ساتھ ساتھ خوبصورت ترین چیزوں کو بھی احساس کمتری کا شکار کر دیتی ہے۔

(جاری ہے)

اکیلے پن کا یہ سفر جو روزانہ طے کرنا پڑتا ہے اسکی چاشنی میں کمی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔چاند میں مگن سردی کی دستک سے بے خبر اندر کی آوازوں کے پیچھے ہو لیا۔۔۔ آنکھوں میں ہجر اور زباں پہ تنہائی کی داستاں ہونٹوں کی کپکپاہٹ بے بسی کا منظر پیش کر رہے تھے جس سے سوائے دل کے سب عاری تھے۔اس ہی لمحے فون کی سکرین آن ہوئی تو ایک میسج دیکھنے کو ملا۔
۔۔ رات کے اس تاریک پہلو میں مجھے رات سے نہیں تنہائی سے ڈر لگ رہا ہے کیا اس کا کوئی حل ہے۔۔۔ میں زندگی سے اکتا کر خود کو آزاد کرنا اور اس پہلو کو خوشی میں بدلنا چاہوں تو کیسے ہو سکتا ہے؟میسج کو پڑھ کر چاند کو دیکھ کر پورے جسم میں ایک لہر سی دوڑ گئی۔مجھے مرگ القریب کا وہ وقت یاد آگیا جب ایک دلعزیز اور ہمراز اپنی آخری سانسوں کے ساتھ بستر کی گود میں اپنے اکیلے پن کی کہانی کو اپنی آنکھوں سے بہتے آنسؤں سے بیان کر رہا تھا۔
زندگی کی گاڑی کے پہیے گھس چکے تھے اس کو سب بے مرؤت لگ رہے تھے جیسے کوئی اس کا نہیں ۔۔سامنے کھڑے ہو کر اس کی آنکھوں میں چھپے ہزاروں سوالات زبان پہ آنے کو تیار تھے لیکن اس کی کپکپاتی اور لڑکھڑاتی آواز ساتھ نہیں دی رہی تھی اسکی الجھن میں اور اضافہ ہوتا جارہا تھا گلے کی رگیں سوکھ چکی تھی۔نظریں آسمان کی طرف اٹھا کر کچھ سرگوشیاں جاری تھیں کہ ہلک سے سانسیں آندھی کی طرح چیرتی ہوئیں آ رہی تھیں۔
شاید جیسے گاڑی کےآخری سٹاپ سے پہلے سیٹیاں بجائی جاتی ہیں ہوشیار کرنے کے لئے کہ منزل آ چکی ہے اپنے اپنے سامان اور چیزوں کو چیک کر لیں۔ایسے ہی کچھ حالات یہاں پہ تھے۔یار پہ جو نزع کا وقت طاری تھا اس میں چھوڑ جانے کا درد اور ساتھ ٹوٹنے کا ڈر تو ایک سائیڈ پہ تھا لیکن اس تنہائی کا خوف جو قبر کی صورت میں نظر آرہا تھا وہ کہیں زیادہ تھا۔بے بسی کے اس دل دہلا جانے والے منظر سے آنکھوں کے دروازوں سے قطروں کا سیلاب امڈ آیا۔۔۔۔۔۔

Browse More Urdu Literature Articles